top of page
 اسلامی جمہوریہ ایران کے صوبے اور ان کی تفصیل
تفصیل جاننے کے لئے مطلوبہ صوبے پر کلک کریں
خوزستان1

ایران شناسی

تاريخ ايران

 

ایران کی جغرافیایی حیثیت یہ ہے کہ وہ مرکزی ایشیا اور مشرقی ایشیا کو مشرق سے قریب اور یورپ سے متصل کرتا ہے ۔ سر زمین ایران قدیم زمانہ ہی سے لوگوں کی مہاجرت اور سکونت کا مرکز ہونے کےعلاوہ بڑے بڑے جنگلوں پرمشتمل اورمختلف ادوارکا شکار رہی ہے۔ سرزمین ایران پر انسان کے موجود ہونے کی تاریخ زیادہ واضح نہیں ہے لیکن پھربھی بعض محققین نے افریقا، مرکزی ایشیا، قفقاز اورشبہ قارہ ہندوستان سے بہت سے لوگوں کے ہجرت کرکے سرزمین ایرن پر آنے کے بارے میں بیان کیاہے۔ ظاہرا سب سے پرانی جگہ جہاں پر ایک بہت پرانا تاریخی پتھر بھی نصب کیاگیاہے جوایران میں پایاجاتاہے وہ خراسان میں بستر رودخانہ کشف کے نزدیک واقع ہے جس سے بہت پرانے پتھر کے اوزاروں کے بارے میں کچھ معلومات ملتی ہیں اس جگہ کے بارے میں اندازہ لگایا جاتاہے کہ یہ جگہ تقریبا ۸۰۰ سال پرانی ہے۔ بہت سے پتھروں کے اوزار زمانہ قبل ازتمدن سے متعلق ہیں جو کہ شیراز کے شمال مشرق میں کشف ہوئے ہیں۔ ان تمام ادوار کو طے کرنے کے بعد جس وقت یورپ بھی زمانہ قبل از تمدن میں زندگی بسر کرہاتھا، ایران میڈل ایسٹ کے دوسرے ملکوں کی طرح جدید متمدن دور میں داخل ہوچکا تھا ، انسان کی زندگی اور پہلے تمدن سے مربوط بہت سے آثار اور شواہد ، ایران میں پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک کوشش غار کمربند (بہ شہر کے نزدیک) اورغار ہوتو (تریجان کے نزدیک بہشہر کے مغرب میں) انجام پائی ہے ان تمدنوں کی قدمت تقریبا ۹۰۰ سال ق م تک پہنچتی ہے اوردوسرے آثار جو آسیاب کے ٹیلے (کرمانشاہ کے مشرق میں) گنج دور (کنگاور کے مغرب جنوبی میں) سرآب کاٹیلہ(کرمانشاہ کے مشرقی شمال میں) زاغہ کاٹیلہ (جوبوئیں زہرا کے علاقہ میں واقع ہے ) ٹل باکون (تخت جمشید کے مغرب جنوبی میں) یانیق کاٹیلہ( تبریز کے مغربی جنوب میں) چغامیش کاٹیلہ (دزفول کے مشرقی جنوب میں) گودین کاٹیلہ(کنگاور کے مغرب میں) گیان کا ٹیلہ (نہاوند کے نزدیک) چشمہ کاٹیلہ (شہر ری کے نزدیک) ابلیس کاٹل (کرمان بردسیر میں) اور یحیی کاٹیلہ (بافت کرمان کے جنوب میں) ملتاہے ان سب چیزوں سے معلوم ہوتاہے کہ ۴سے ۹ ہزاراسال ق م پہلے انسان اس سرزمین پر زندگی بسر کرتے تھے ۔بمپور (نہرہلیل کے درہ کے نزدیک) جلاہواشہر (زابل کے جنوب میں)ٹیلہ شوش اور سات ٹیلہ(مشرقی شوش کے جنوب میں) ٹیلہ حسنلو(نقدہ کے قریب) ٹیلہ مارلیک یا چراغ علی کاٹیلہ (گیلان کی نہر کے پاس) ٹیلہ تورنگ (مشرقی گرگان کے شمال میں) ٹیلہ زیویہ) مشرق شقزمیں) ٹیلہ حصار (دامغان کے قریب) ٹیلہ موسیان (دھلران کی سرزمین پر)شہداد یا خبیث کاٹیلہ اور قبرستان (کرمان کے مشرق میں) اور ٹیلہ گنج(کلاردشت مازندارن میں) یہ سب آثار ،بیابان ایران کے بہت پرانے تمدن ہونے پر دلالت کرتے ہیں اور معلوم ہوتاہے کہ یہ سب آثار ایک ہزار سال قبل از میلادی سے یہاں پرموجود ہیں۔ پہلے تمدنوں میں سے ایران کی تاریخ میں جوبہت ہی مشہور تمدن کہاجاتاہے وہ سیلک کاتمدن ہے۔اس تمدن کے آثار سیلک کے ٹیلوں (مغربی کاشان کے جنوب (میں پائے جاتے ہیں اوریہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ایران کے بیابان سب سے پہلے والے انسانوں کے زندگی بسرکرنے کی سب سے پرانی جگہ ہے ۔ قدیمی ترین سیلک کے ٹیلوں کی قدمت تقریبا پانچویں ہزارہ کے شروع اور چھٹے ہزارہ کے اواخر قبل از میلادی تک پہنچتی ہے۔ اس زمانے کے جو مٹی کے برتن ہم تک پہنچے ہیں وہ سب سے پہلے تمدن کی خبردیتے ہیں اس سرزمین پر مٹی کے برتنوں کا استعمال زیادہ معلوم دیتاہے ان میں سے بعض کی قدمت تو تقریبا ۴۰۰۰ سال قبل از میلادی تک پہنچتی ہے اوراسی وجہ سے بیابان ایران کو سب سے پہلے مٹی کے برتنوں کاگہوراہ کہاگیاہے۔ بیابان ایران کے جنوبی اورمغربی علاقہ کاجو ارتباط بین النہرین سے ہے اس سے معلوم ہوتاہے کہ یہ علاقہ دوسرے علاقوں سے پہلے تاریخی دور میں داخل ہوگیاتھا اس لئے کہ قبل از میلادی کے تیسرے ہزارہ کے شروع میں خوزستان کے بیابان میں جو خطی تصویریں اختراع کی گئی ہیں ان کو”ایلامی آغازین“ کہاجاتا ہے ۔ اس خط کے نمونے سیلک میں، ٹیلہ کنگاور کے گہرائی ،ٹیلہ ملیان فارس یہاں تک کہ زابل کے جلے ہوئے شہر میں بھی ملتے ہیں جو کہ اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس زمانے میں مغربی ایران کے بیابان دوسری جگہوں کے بیابان سے ثقافتی اتصال رکھتے تھے۔ مغربی ایران کے بہترین ساکنین میں سے (جنوب سے لیکر شمال تک) یہ لوگ تھے : ایلامیان، کاسی ھا،لولوبی ھا،گوتی ھا،ان قوموں کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں اور زبان وقبیلہ کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قریب بھی تھے، ایلامیوں کی اصلی سرزمین،شوش دریائے کارون نامی درے اور خوزستان کا قلعہ تھا جوکہ پہاڑی اور شمال کے بلند وبالا بیابیان اور شوش کے نچلے حصہ سے مشرقی شمال تک جاتا ہے۔ لیکن ایلامیوں کی بادشاہت نے بہت ساری وسیع زمین کو اپنے حصہ میں لے رکھا تھا اور جنوب تالیان(بوشہر موجودہ) اورمشرق میں انشان یا انزان (ٹیلہ ملیان، مرودشت فارس کے قریب) کو شامل ہوتی تھی قدیمی ادوار میں بین النہرین کا اقتصاد بیابان ایران کے طبیعی منابع اور زاگرس کے پہاڑوں سے وابستہ تھا سومریوں اور آکدیوں کی خوزستان اور زاگرس کے پہاڑی علاقوں پر حملہ کاسبب یہی چیزتھی،اس سب لوٹ مار کی وجہ سے تیسرے ہزارہ ق م کے درمیان شاہک نشین خرد نے زاگرس او رخوزستان کے درمیان پہاڑی علاقوں میں ایک سیاسی او رفوجی متحد حکومت ایلام کا اعلان کردیااور تقریبا ۶۴۶ق م تک آشوریوں کے ہاتھوں سقوط سے پہلے یہاں پر متعددجگہوں پر بادشاہی تھی،پوزور(کوتیک) این شوشینک، شیلھک، اونتش۔ گل، شوتروک۔ نھونتہ۔ کوتیر۔ کوتیر۔ نھونتہ و شیلھک۔ این شوشینک ایلامی سلسلہ کے حاکموں میں سے نامدار ترین حاکم تھا شوش اورانشان کے علاوہ دوسرے شہر اون(احتمالا شوشتر موجودہ)،سیمش (خرم آباد موجودہ)،مدکتو (احتمالا شمال شوش میں) اور ھیدلو (مشرق کے پہاڑوں میں فارس کے راستہ کی طرف) ان کا حکومت ایلام کے بڑے شہروں میں شمار ہوتاتھا۔ اقوام کاسی، لولوبی و گوتی زاگرس مرکزی میں زندگی بسرکرتے تھے انہی میں سے کاسی تیسرے ہزارہ قبل از میلادی کے اواخرمیں سرزمین لرستان پرزندگی بسر کرتے تھے لیکن ان کی اصل جگہ بالکل صحیح معلوم ومعین نہیں ہے۔ ۱۶ یا ۱۷ قرن ق م سے لیکر تقریبا ۱۱۵۵ ق م بابل انہی لوگوں کے زیر تحت تھا یہ بین النہرین پر غیرایرانیوں کی سب سے طولانی مدت کی کامیابی ہے۔ لرستان کامس جوکہ مغرب ایران کے ہنر کے بہترین نمونے تھے دوسرے ہزارہ کے اواخر اور پہلے ہزارہ کے شروع میں پایاجاتاتھا بہت سے محققین نے اس کو اقوام کاسی سے منسوب کیاہے لولوبیوں نے ظاہرا زاگرس کے پہاڑی علاقہ اور دوسرے وسیع علاقوں پر اپناتصرف کررکھاتھا اورانہوں نے اپنامرکز شہر زور کو بنارکھاتھا ۔ مہم ترین یاد گار جووہ چھوڑ کرگئے وہ لولوبی بادشاہ انوبینی کاایک برجستہ نقش ہے جو پل زہاب کے قریب ہے اور اس کے اوپر ایک کتیبہ بھی اکدی زبان میں موجود ہے ۔ گوتی قوم جو کہ شاید شہر زور کے شمال میں زندگی بسر کرتی تھی تیسرے ہزارہ کے اواخرمیں انہوں نے بابل کو اپنے قابومیں لے لیا اوراس کے کچھ بعد ایلام پر بھی اپنا تسلط جمالیا۔ لیکن ایران کی تاریخ ”آریوں کی سرزمین “ہونے کی حیثیت سے قوم آریا (ہندوستانی اورایرانی)کے یہاں پرہجرت کرنے سے بیابان ایران میں داخل ہوکراپنا آغاز کرتی ہے آریائی ہندوستان اور اروپا کی قوموں میں سے ایک قوم تھی جوکہ ایک دوسرے سے جداہونے کے بعد دوسر ے ہزارہ میں مرکزی ایشیا میں زندگی بسر کرتے تھے زرتشتیوں کی کتابوں میں ایرانیوں کی پرانی سرزمین کانام ”ایران ویج“ بیان کیاگیاہے اورندیداد میں بیان کیاگیاہے کہ ایران ویج سب سے پہلی سرزمین ہے جوکہ اھورہ مزدا کے ہاتھوں پیداہوئی ہے بعض محققین کی نظر میں جس وقت بیابان ایران میں لوہے کازمانہ اپنے عروج پر تھاآریائی مہاجرتقریبا ۸۰۰ سے لیکر ۱۰۰۰ ق م میں اس سرزمین کے مغربی علاقہ میں داخل ہوئے تھے آریائیوں کے ایران میں داخل ہونے کے راستے کے بارے میں بہت سے لوگوں کاکہناہے کہ یہ مہاجر مرکزی ایشیاسے مغرب کی طرف آئے یہاں تک کہ زاگرس کے پہاڑوں تک پہنچ گئے لیکن دوسرے لوگوں کانظریہ ہے کہ آریائی مہاجرین دو مختلف راستوں دریائے خزر کی طرف سے ایران میں داخل ہوئے ہیں اور طوائف مادی وپارسی قفقاز کے راستے سے سرزمین ایران میں داخل ہوئے ہیں کیانی حکمرانوں کی روایات سے پتہ چلتاہے کہ آریائی زردشتیوں کے زمانے تک ایران میں موجود تھے۔ نویں صدی قبل از مسیح سے آریائی قوم کا شکنجہ زاگرس کے پہاڑی علاقہ میں بومیان پرزیادہ ہوگیا اور انہوں نے مغرب کی طرف پڑھتے ہوئے رفتہ رفتہ وہاں کے رہنے والوں کوشہروں اورآبادیوں سے باہر نکال دیااور آشوریان کے برابر میں کھڑے ہوگئے اسی وجہ سے ماد وپارس کی اقوام کا نام پہلی مرتبہ آشوریوں کی کتابوں میں آگیا اوران کی سرزمینوں کے نام ”مدی“ ۶ (ہمدان کے قریب) و”پرسوئیہ“۷ (دریای ارومیہ کے مغرب اورجنوب مغربی علاقہ بتائے گئے ہیں شلمنصر آشوریوں کے تیسرے بادشاہ کے سالنامہ میں ۸۴۴ ق م میں پارسیان کا اور ۸۳۶ ق م میں مادیوں کانام لیاگیا اسی کے ہم عصر نویںصدی قبل از مسیح کے اواخر اورآٹھویں صدی ق م کے اوائل میں آشوریوں کی حکومت کمزور ہوگئی اوران کی یہ کمزوری اورارتور (آرارات) کی حکومت کے مضبوط ہونے کاسبب بن گئی اورارتو کی وسیع قدرت آشور کی پریشانی کاسبب تھی اور آشوری بادشاہ ،اپنی سرحدوں پراورارتو کے احتمالی حملوں کا جواب دینے کیلئے مجبور تھے کہ ایک بہت بڑی فوج تیار رکھیں ۔ اورارتو کے ایک بادشاہ نے آٹھویں صدی ق م کے شروع میں آشور کو دھمکی دی کہ وہ دریای اورمیہ کے مغربی ساحل پر اپنا قبضہ جمالے گا اوردوسری زمینیں بھی جوکہ قبیلہ مانای سے متعلق ہیں اور دریاکے مشرقی ساحل کے برابر میں ہیں اپنی زمین میں بڑھا لے گا لیکن جنگجو اورمستقل طلب آریایی اورپارس قوموں کے حالات پر نظررکھنے کی وجہ سے جوکہ اسی سرزمین پرمستقر تھے بہت مشکل تھا اوراسی حس استقلال نے ان اقوام کی مددکی فرمانروای تیگلت پیلسر سوم (۷۴۴۔۷۲۷ق م)کے آغاز میں آشوریوں نے مغرب پراورارتو کے وسیع نفوذ کو مقابلہ میں ایک لشکرکشی کی اور زاگرس کی وسیعی سرزمین ان کے تصرف میں آگئی۔آشوریان کے اس فوجی حملے نے ان کو مادیوں کے مقابلے میں لاکھڑا کیا اور۷۳۷ق م میں یہ لوگ مادیوں کے قلمرو میں داخل ہوگئے۔ آشوریوں کے کتیبہ اس بات کی حکایت کرتے ہیں کہ یہ لوگ مادیوں سے خراج لیتے تھے اوران کی سرزمین میں حتی کے پہاڑوں پربھی انہوں نے اپنا اثرورسوخ قائم کرلیا۔ بیکنی نامی پہاڑی کی اہمیت کا تعین(جسے پہلے دماوند کاہی حصہ تصور کیاجاتاتھا) اورآج اسے قلہ الوند پرمنطبق کیا جاتاہے،آشوریوں کے مادیوں کی حکومت میں نفوذ اور قبضہ کی حدود کو واضح کرسکتاہے ماد و پارس کے قبیلوں نے مہاجرت کی وجہ سے یاپھر ایران میں مستقرہونے کی وجہ سے آپس میں رشتہ داری قائم کرلی اوران کے وہاں پرمستقل ہوجانے کی وجہ سے ایک دوسرے سے رشتہ داری قائم کرنے میں کوئی روکاوٹ نہیں تھی اسی وجہ سے زبان شناسی کی جدید تحقیق بتاتی ہے کہ واژہ ”ماد“ کاریشہ ہند یا یورپ سے نہیں لیاگیاہے ہرودت کی تحقیق کے مطابق پرانے زمانے میں تمام مادیوں کو آریائی کہاجاتاتھا ہرودت مادیوں کے ۶ بڑے قبیلوں کا ذکر کرتاہے جن میں سے ”مغھا“ ایک قبیلہ ہے ۔ یہی یونانی مورخ پارسیوں کے بارے میں کہتاہے کہ یہ ۱۰قبیلوں سے مل کربناہے اور پاسار گادیوں میں سے ھخامنشیان بھی انہیں میں سے تھے ان کو پارسی قبیلہ کا سب سے اچھا قبیلہ مانتے ہیں ۔ درحقیقت پارسی بھی اسی زمانے میں ماد قبیلوں پر قدرت پانے کی وجہ سے اور تقریبا ۸۱۵ سال ق م سے اپنی پہلی سرز مین ایران سے جنوب کی طرف چلے گئے اورشوش کے مشرقی شمال میں پرسومش ۳ کے علاقہ میں مستقر ہوگئے تقریبا ۷۰۰ سال ق م، ھخامنش قبیلہ پارسی کا سربراہ جوکہ ظاہرا سناخریب پادشاہ آشوری کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد(۶۹۲) متحد ایلام و بابل تھا۔ اسی طرح پارسی بھی اس زمانے میں مادیوں کے ساتھ ساتھ تھے لیکن حالات نے کردگان ماد کی زیادہ مدد کی اورانہوں نے قبیلہ ماد کومتحد کرکے پارسیوں سے پہلے اپنی حکومت بنالی۔

 

ایران کے صوبے

موجودہ ایران کو انتظامی طور پر اکتیس صوبوں میں تقسیم کیا گیا ہے جنکو فارسی زبان میں استان کہتے ہیں۔ ہر صوبہ کا ایک دارالخلافہ ہے جسکو مرکز کہتے ہیں اور جو عام طور پر صوبہ کا سب سے بڑا شہر ہوتا ہے۔ مرکز یا صوبائی دارالخلافہ کا انتظام علاقائی حکومت چلاتی ہے جسکا سربراہ گورنر جزل یا استاندار ہوتا ہے جسکو ایرانی وزارت داخلہ وفاقی کابینہ کی منظوری سے مقرر کرتی ہے۔1950ء تک ایران کل 12 صوبوں میں تقسیم تھا، جنکو 1950 میں انتظامی طور پر تبدیل کر کے 10 ریاستوں میں تبدیل کر دیا گیا۔ 1960ء تا 1981ء کئی ریاستوں کو ایک ایک کر کے صوبوں کا درجہ دیا جاتا رہا اور ساتھ ہی ساتھ نۓ صوبے بھی بناۓ جاتے رہے، جس سے صوبوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ آخری بار 2004ء میں صوبہ خراستان تقسیم کر کے تین نۓ صوبوں میں تبدیل کیا گیا۔

خراسان

آٹھ ہزار سالہ روایت کے مطابق تاریخ خراسان:

 

خراسان دو الفاظ کی ترکیب ہے۔ ’’خور‘‘ یعنی خورشید (سورج) اور’’ آسان‘‘ یعنی طلوع ہونے والا۔ خراسان ایک ایسا مقام ہے جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے اور تمام سرزمین ایران کو روشنی بخشتا ہے۔ خراسان کی تاریخ ایران کی تاریخ سے یوں جڑی ہوئی ہے کہ بعض اوقات خراسان کے کسی تاریخی دور کا ذکر کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایران کی تاریخ کو بیان کیا جا رہا ہے اور جب ایران کی تاریخ کا بیان ہو تو گویا خراسان کی تاریخ دہرائی جاتی ہے۔جب بھی ایرانی علم و ادب اور ثقافت کی داستان بیان کی جاتی ہے تو سرِفہرست خراسان کا نام ہوتا ہے۔ رودکی، فارابی، ابن سینا، ابوریحان البیرونی، فردوسی، خیام، غزالی، خواجہ نصیر الدین طوسی وغیرہ اسی سرزمین سے وابستہ تھے، اور جب تصوف کی بات ہو تو ایران کو ’’عظیم صوفیوں کی سرزمین‘‘ کہا جاتا ہے، اور ایک بار پھر خراسان ہی کا نام سرفہرست آتا ہے جس کی آغوش میں سینکڑوں عرفاء و صوفیاء کی پرورش ہوئی، مثلاً ابراہیم ادھم، ابوسعیدابولخیر، عطار نیشاپوری وغیرہ۔سیاسی و جنگی حوالے سے بھی اہلِ خراسان پیش پیش تھے۔ مثلاً ایران پر حکومت کرنے والے اہم خاندانوں میں برمکی، فضل سرخسی، بلعمی، خواجہ نظام الدین طوسی اور جوینی خاندان، ان سب کا تعلق خراسان سے تھا۔ رزمیہ واقعات کی اہم شخصیات میں ابومسلم خراسانی اور نادر شاہ افشار قابل ذکر ہیں۔دور کیوں جائیں؟ عصرِ حاضر میں بھی علی شریعتی، مہدی اخوان ثالث، محمد رضا شفیعی کدکنی، مرتضیٰ مطہری اور محمد رضا شجریان جیسی نامور شخصیات بھی خراسان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ڈاکٹر علی شریعتی کے قول کے مطابق ’’خراسان متضاد اور متناقض استعداد اور اہلیت کی تربیت گاہ ہے‘‘۔ یہاں شجاعت، عسکری اور رزمیہ روح، علمی و فلسفیانہ افکار، نازک عرفانی تصورات و احساسات، سبھی کچھ 

خوزستان

یکجاملتا ہے۔خراسان، ہتھیار سازی کا مرکز:مشہد سے چالیس کلومیٹر کے فاصلہ پر دریا کے کنارے ایرانی و فرانسیسی آثارِ قدیمہ کے ماہرین کو خنجر اور تلوار جیسے ہتھیار ملے ہیں، جن کا شمار انسان کے بنائے ہوئے قدیم ترین ہتھیاروں میں ہوتا ہے۔ یہ تقریباً آٹھ سو سال سے ایک ملین سال تک قدیم ہیں۔ اس طرح قدیم ترین ہتھیار بنانے والے انسانوں کی موجودگی کے آثار ایران اور جنوب مغربی ایشیا، خراسان میں پائے جاتے ہیں۔ آثارِ قدیمہ کے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً سات ہزار سال قبل خراسان کے شمالی 

علاقہ جات مثلاً درگذر اور مشہد کے صحرا میں ایسے ماہر انسان قیام پذیر تھے۔ اس علاقہ کے مقیم کم از کم پانچ ہزار سال قبل آبپاشی کے ذرائع، کانسی کے برتن، نباتات کی کاشت، گھروں کی تعمیر اور صنعتی کارخانے قائم کرتے تھے۔ المختصر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سرزمینِ ایران پر آریاؤں کی آمد سے بھی پہلے خراسان میں قابل توجہ تہذیب و تمدن کے حامل انسان رہائش پذیر تھے، ان کو آسیائی اقوام کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔آریائی قوم تقریباً چار ہزار سال قبل آسیائی اقوام پر حملہ آور ہوئی، اگرچہ آغاز میں ان کے حملے پسپا کر دیے گئے لیکن ایک ہزار سال کی کشمکش کے بعد تقریباً ایک ہزار قبل مسیح میں مغلوب ہو گئے۔ ان کے بڑھتے ہوئے قدم روک دیے گئے اور خراسان کی تاریخ کے سنہرے دور کا آغاز ہو گیا

 

قدیم خراسان، سرزمینِ ایران اور توران:

 

قدیم ایران میں یہ چار حصّوں شمال، جنوب، مشرق اور مغرب میں تقسیم کیا گیا تھا اور خراسان میں تمام مشرقی علاقے اور سیستان کا علاقہ شامل تھا۔ اسلامی دور کے آغاز میں ماوراء النہر (دریائے جیحون اور دریائے سیحون کا درمیانی علاقہ) بھی خراسان میں شمار ہوتا تھا۔ یہ ریاست چین کی سرحد پامیر اور کوہِ ہندوکش تک پھیلی ہوئی تھی لیکن رفتہ رفتہ خراسان کی حدود سمٹتی چلی گئیں، یہاں تک کہ دریائے جیحون کے باہر کا علاقہ اس میں شامل نہ رہا۔ عرب مسلمانوں کے ایران پر قبضہ کے بعد خراسان کے چار حصّے تھے۔ اس کے چار بڑے شہر یعنی نیشاپور، مرو، ہرات اور بلخ ہر حصّہ کے مرکز تھے۔ جب خراسان کی تاریخ کی بات کی جائے تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ ایران کی اندرونی حدود تک محدود نہیں تھا بلکہ افغانستان اور ترکمانستان کے بڑے علاقے بھی اس میں شامل تھے۔ بلحاظ زمانہ بھی قدیم ایران کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس دور میں خراسان مزید وسعت رکھتا تھا اور تاجیکستان و ازبکستان کے بعض علاقے بھی اس کا حصّہ تھے۔جب آریائی خراسان کے راستے ایران میں داخل ہوئے تو یہ تین گروہوں مادی، پارسی اور پارتی میں تقسیم ہو گئے۔ ماد شمال مغرب کی جانب، پارس جنوبی اور جنوب مغربی ایران میں قیام پذیر ہوئے جبکہ پارت خراسان میں ہی رہے۔ ابتدا میں ماد خاندان نے سیاسی طاقت کے حصول کے لیے ’’ماد‘‘ سلسلے کو اپنی بنیاد بنایا اور پارسیوں نے ہخامنشی سلسلے کی بنیاد رکھی۔ اس سلطنت کا ۲۲۹ سال بعد اسکندر مقدونی کے ہاتھوں خاتمہ ہوا اور کچھ ہی عرصہ کے بعد اغیار کی اور غیرایرانی حکومتوں ’’سلوکیان‘‘ نے مکمل ایران پر تسلط حاصل کر لیا۔ سلوکیان کے خلاف پہلی مخالفت کی تحریک کا آغاز خراسان یعنی پارت خاندان کی جائے سکونت سے ہوا۔ پارت خاندان نے تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل مسیح میں دو بھائیوں ارشک اور تیرداد کی سربراہی میں خراسان سے اپنی تحریک کا آغاز کیا اور رفتہ رفتہ سلوکیوں کو ایران سے باہر کر دیا لیکن جب ایران کی مغربی سرحدوں پر رومی فوجیوں نے لشکرکشی کی تو اشکانی حکومت اس کا نشانہ بنی۔ حکومت کا سیاسی مرکز بھی بین النہرین میں منتقل کر دیا گیا اور اس فوج کے سپہ سالار جنگ کرنے پر مجبور ہو گئے۔خراسان ہر لحاظ سے پارت حکومت کے لیے ایران کا اہم ترین صوبہ تھا اور ساسانیوں کے عہدِ حکومت میں ایران کے اہم ترین اور سب سے بڑے ثقافتی و تمدنی مرکز کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس عہد میں ایران کا سرکاری مذہب زرتشتی تھا اور ساسانی سلطنت میں کئی آتشکدے روشن تھے۔ ان میں اہم، مقدس اور معتبر ترین یہ تین آتشکدے تھے۔ ایک ’’آذر فرنبغ‘‘ تھا جس کی آگ فقط مذہبی پیشوا کے لئے مخصوص تھی۔ ’’آذر گشسب‘‘ بادشاہوں اور سپہ سالاروں کے لیے اور ’’آذر برزین مہر‘‘ کسانوں کے لیے مخصوص تھے۔آذر برزین مہر خراسان میں واقع تھا اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نیشاپور کے شمال مغرب میں ’’ایوند‘‘ کا آتشکدہ اسی کی باقیات میں سے ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ زرتشت مذہب چھٹی صدی قبل مسیح میں پہلے خراسان میں پھیلا اور بعدازاں دیگر مقامات تک پہنچا۔شاہ قباد (خسرو انوشیروان کا باپ) کے دورِ حکومت میں پانچویں صدی عیسوی کے دوسرے نصف میں طبقاتی ناانصافی اور نچلے طبقے کے عوام پر شدید دباؤ اور مصائب و آلام کا دور تھا۔ اسی عہد میں ’’مزدک‘‘ کا ظہور ہوا۔ خراسان اپنے گرد و نواح کے اہم علاقوں میں انقلابی نظام کے فروغ کا باعث بن گیا۔ ساسانیوں کے زوال اور ایران میں اسلام کی آمد کے بعد بھی خراسان میں مزدکیان کا اثرورسوخ باقی تھا۔ اگرچہ مزدک کی جائے پیدائش کے بارہ میں زیادہ معلومات نہیں ملتیں لیکن بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا تعلق نیشاپور سے تھا۔ساسانی دورِ حکومت میں خراسان کے دور دراز کے علاقوں مثلاً بلخ اور تخارستان میں بودائی مذہب کے پیروکاروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ چین اور ہندوستان کی سرحدوں پر، ایران کی سرحد اور شاہراہ ریشم پر خراسان کے واقع ہونے کی وجہ سے ان ممالک کے ساتھ تہذیبی تعلقات کے تبادلے کی وجہ سے دونوں کی ثقافتیں ایک دوسرے کے اثرات قبول کیے بغیر نہ رہ سکیں۔ اسی بنا پر بدھ ازم کے رسم و رواج کے اثرات ایران کے مشرقی اور شمال مشرقی علاقوں میں نظر آتے ہیں۔ خراسان کا سرحد پر واقع ہونے کا ایک اور بھی نقصانتھا، وسطتی ایشیا میں مقیم نیم بدو اقوام نے اپنی آبادی کی زیادتی اور زندگی کے وسائل کی کمی کی وجہ سے وسیع تر زمینوں اور وسائل کی تلاش میں کئی بار خراسان پر چڑھائی کی اور اس علاقہ کے عوام کی زندگیوں کو بری طرح متاثر کیا۔ ان کی لشکر کشی میں اس حد تک اضافہ ہو گیا کہ ساسانی بادشاہ ایران کی شمال مشرق سرحد کے کئی علاقوں کے گرد دیوارِ چین کی مانند دفاعی حصار بنانے پر مجبور ہو گیا تا کہ یہ علاقہ اور اس کے رہائشی اس نیم بدو قوم کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔دیوارِ چین کی طرح یہ دیوار بھی زمانے کے حوادث کے ہاتھوں محفوظ نہ رہ سکی اور رفتہ رفتہ منہدم ہو گئی۔ یہ دیوار وسطی ایشیا کے حملوں کا سدِ باب نہ کر پائی۔ یہ یورش تمام اسلامی ادوار میں بھی جاری رہی۔ ایران و خراسان کی سرحدوں پر ان کے سائے منڈلاتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایرانی ادب کی قدیم داستانوں میں خراسان کو ایران اور توران کی درمیانی سرحد کہا گیا ہے۔

 

اسلام کی آمد اور خراسان میں ایرانی تمدن کا احیا:

 

اگرچہ زمانۂ قدیم سے ہی خراسان انتہائی اہمیت کا حامل تھا لیکن ایران میں اسلام کی آمد سے اس علاقہ کے سنہرے دور کا آغاز ہوا۔ جب مغرب سے عرب مسلمانوں کی یورشوں کا آغاز ہوا تو خراسان وہ آخری علاقہ تھا جہاں عربوں کے قدم پہنچے۔ حضرت عمر بن خطاب کے دورِ خلافت میں مسلمانوں نے خراسان کے دروازے کھولنے کی بہت کوشش کی لیکن اس مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ پھرحضرت عثمان بن عفان کے زمانۂ خلافت میں ۳۱ ھ میں طبس کے شہر کی فتح سے خراسان کی فتح کا آغاز ہوا اور یہ سلسلہ معاویہ بن ابی سفیان کے عہد میں اور بعدازاں بھی جاری رہا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ خراسان کے اہم علاقے حضرت عثمان غنی کے دور میں فتح ہوئے۔ عربوں کے حملوں کے ساتھ کئی عرب قبائل بھی خراسان کی طرف ہجرت کر آئے۔ اس علاقہ کے وسیع ریگستان جو ان کی خانہ بدوشی زندگی کے لیے مناسب تھے، یہاں سکونت پذیر ہو گئے۔ بنی امیہ کی حکومت نے مقامی ایرانیوں اور مہاجرین کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھا حتّٰی کہ وہ اسلام قبول کرنے والے ایرانیوں کو عربوں کے برابر حقوق دینے پر بھی تیار نہیں تھے۔ ان کے مظالم بے حد و حساب تھے۔اسی روز سے خراسان میں بنی امیہ کے ساتھ دشمنی کا آغاز ہو گیا۔ امویوں کے خلاف تمام شیعہ تحریکوں کا گٹھ جوڑ اس قدر تھا کہ اموی دور کے خاتمہ کے وقت جب امام سجاد نے خراسان میں قیام کیا تو ان کے پیروکاروں کی بڑی تعداد ان کے گرد جمع ہو گئی۔ یحیٰی بن زید ۱۲۵ ھ میں قتل ہوا تو خراسانیوں نے اپنے اکثر نومولود بچوں کے نام اسی کے نام پر رکھے۔اسی دوران عباسی (پیغمبر اکرم کے چچا حضرت عباس کی اولاد) خاندان امویوں کے خلاف برسرپیکار رہتے تھے اور خراسان کے خلاف دشمنی میں اسی خلافت کی مسند سے استفادہ کرتے تھے اور خراسان کی طرف مختلف نمائندے بھیج کر امویوں کے خلاف پروپگنڈہ کرتے تھے۔ آخرکار خراسانیوں کی مکمل حمایت کے ساتھ ابو مسلم خراسانی کی سرپرستی میں تحریک کا آغاز کیا اور ابو مسلم خراسانی نے نہایت دلیری سے بنو امیہ کی حکومت کا تختہ الٹ دیا اور یوں عباسی حکومت تشکیل پائی۔لیکن جلد ہی منصور دوانیقی کی غداری کی وجہ سے دوسرے عباسی خلیفہ کا قتل ہوا۔ اگرچہ ابو مسلم کے قتل سے اہل خراسان غم و غصّہ کا شکار تھے لیکن خلیفہ کی حکومت نے اپنا وجود قائم رکھا۔ ہارون الرشید کی وفات کے بعد پانچویں عباسی خلیفہ نے امین اور مامون کے بیٹوں کے درمیان جنگ میں مامون کے بیٹوں کی حمایت کی اور وہ مامون کے مرکز، مرو سے مغربی علاقوں پر حملہ آور ہوئے اورر عباسیوں کے دارالحکومت بغداد پر قبضہ کیا اور مامون کو قتل کر دیا گیا۔ یہ تمام کام ایک خراسانی طاہر بن الحسین نے انجام دیا۔ یہ طاہر ذوالیمینین (دو ہاتھوں والا) کے نام سے مشہور تھا۔ طاہر کو اس کی خدمات کے صلہ میں حکومت بھی دی گئی لیکن اس نے کچھ ہی عرصہ کے بعد ۲۰۵ ھ میں جمعہ کے خطبہ سے مامون کا نام حذف کر دیا گیا اور اس طرح اسلام کی آمد کے بعد خراسان میں ایرانی حکومت کی بنیاد رکھی گئی۔ اس حکومت کا مرکز نیشاپور تھا اور طاہر کے نام سے یہ طاہریان کا دورِ حکومت کہلاتا ہے۔اسلام کی آمد کے بعد سے خراسان میں واضح تبدیلیاں رونما ہوئیں اور یہ تغیرات محض سیاسی نہیں تھے بلکہ خراسان کی ثقافت نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلامی دورِ حکومت میں خراسان کی ثقافتی ترقی کو عروج حاصل ہوا۔ مزید برآں عربی زبان و ادب کے مقابلہ پر فارسی زبان و ادب کے چراغ کو روشن رکھا گیا۔ کسی بھی منطقہ کی آبادی کا اپنی زبان سے تعلق سب سے زیادہ گہرا ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو مصر، شام اور بحر النہرین کی طرح فارسی زبان بھی عربی زبان میں ہی مدغم ہو جاتی۔ اس طرح ہمارا ثقافتی ورثہ بھی ناپید ہو جاتا لیکن اسلام کی آمد کی ابتدائی دہائیوں میں فارسی زبان عربی زبان کے مقابلہ میں کسی حد تک دب گئی تھی۔ ایک بار پھر خراسان سے تروتازہ ہو ئی اور آج افغانستان اور تاجیکستان میں بولی جانے والی دری فارسی خراسانی لہجہ کے ساتھ پورے ایران میں رواج پا گئی اور خراسان میں فارسی زبان کا عظیم شاہکار شاہنامۂ فردوسی تخلیق پایا جو فارسی نظم و نثر کا پہلا شاہکار تسلیم کیا جاتا ہے۔طاہریان کے بعد تیسری ہجری کے دوسری نصف صدی میں سیستان کے خاندان صفاریان حکومت کا بانی یعقوب لیث کی خراسان میں حکومت قائم ہوئی اور صفاری بھی طاہریوں کی مانند فارسی زبان کے احیاء کے لئے کوشاں رہتے۔ یعقوب لیث کو عربی زبان اور عباسی خلافت کے ساتھ شدید اختلافات تھے۔ اس سلسلے کی حکومت کے قیام کے بعد سیستان میں ان کا اثر و رسوخ بڑھ گیا اور سامانی حکومت نے ماورالنہر میں قدم جما لیے اور رفتہ رفتہ خراسان پر بھی قبضہ جما لیا۔ سامانیوں کو ادب پرور، ایرانی ثقافت کے دلدادہ اور قدیم آداب و رسوم کا احیا گر سمجھا جاتا ہے۔ اس طرح ان کے اقتدار کو بعد از اسلام ایرانی تاریخ کا درخشاں ترین باب تصور کیا جاتا ہے۔ اس دور میں خراسان اور ماوارالنہر کو ایرانی ثقافت کے احیا کا مظہر سمجھا جاتا ہے۔سامانی دور میں فارسی شاعری میں نئی جہتیں پیدا ہوئیں اور ایرانی ایوانوں میں قدیم ساسانی روش کی بجائے ایک نئی قوم نے جنم لیا۔ ایرانی قوم کی رزمیہ داستانوں کو پہلی بار ابو منصور کے شاہنامہ میں جمع کیا گیا، قرآن پاک کا فارسی زبان میں ترجمہ ہوا، جریر الدین طبری کی تاریخ اسلام اور تفسیر کا بھی عربی سے فارسی زبان میں ترجمہ کیا گیا۔ فارسی کے پہلے شاعر رودکی کو سامانیوں کی خاص حمایت حاصل تھی۔ ایرانی متانت کے مظہر ابنِ سینا کو ان کے دربار میں کاخاص مقام و مرتبہ حاصل تھا۔سامانیوں کے بعد غزنویوں نے مشرقی ایران پر تسلط قائم کیا اور خراسان کے اہم شہر غزنین جو موجودہ زمانہ میں افغانستان میں واقع ہے، اس کو اپنا دارالحکومت منتخب کیا۔ اگرچہ سامانیوں کی طرح اس کا حسب نسب بھی ایرانی نہیں تھا بلکہ یہ ترک نژاد تھے۔ یہ ادباء اور دانشمندوں کی حمایت اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور ایرانی ثقافت کی ترویج واشاعت میں بھی کوشاں رہے۔ طویل مدت کے بعد خراسان سلجوقیوں کے ہاتھوں غزنویوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔ اس دور میں خراسان کی تہذیب و تمدن ترقی کے راستے پر گامزن رہی اور اگلی کئی دہائیوں تک ادبی و علمی تحقیقات منظر عام پر آتی رہیں۔ خراسان میں کئی کتب خانے بھی قائم ہوئے جہاں لاکھوں کی تعداد میں کتابوں کے خزانے موجود تھے اور نیشاپور جیسے شہروں کے علمی مدارس میں سینکڑوں دانشور اور محقق تحقیقی کاموں میں مشغول رہے۔

 

بربادی و خوشحالی، خراسان کے ادوار:

ایران میں بعد از اسلام چھ صدیوں میں خراسان کے حالات کو سمجھنے کے لیے محض وہاں کے عجائب گھروں میں جائیں تو ملاحظہ کریں کہ وہاں زیادہ تر صنعتی اور ہنری شاہکاروں کے نمونے کس دور اور کس علاقہ سے متعلق ہیں اور اگر ایران کے تمام دانشوروں کے ناموں کی ایک فہرست تیار کی جائے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر دانشوروں نے کون سی سرزمین میں پرورش پائی ہے۔ اگر فلسفہ، کلام، تصوف اور علمی و ادبی کتب کی فہرست تیار کی جائے تو یہ بات باعث حیرت ہو گی کہ ان کی ایک بڑی تعداد ان چھ صدیوں میں خراسان میں ہی تخلیق و تألیف کے مرحلہ سے گزریں۔مقامِ افسوس ہے کہ ۶۱۷ھ میں منگولوں کی یورش کے دوران ان میں سے بہت بڑی تعداد تباہ و برباد ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں کم و بیش ایرانی ثقافت کی کمر ٹوٹ گئی۔ البتہ منگولوں کے حملوں سے قبل ترکوں اور غزنویوں نے بھی وسطی ایشیا سے ۵۴۸ ھ میں خراسان پر چڑھائی کر دی اور مختلف شہروں کو نیست و نابود کر دیا۔ لیکن منگولوں کے مقابلہ میں ان حملوں کی شدت کم تھی۔ شاید ترکوں کے حملے منگولوں کے حملوں کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔ چنگیز خان کی سرکردگی میں خراسان کے تمام شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ وہاں کے لوگوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا قیدی بنا لیا گیا۔ مدارس اور کتب خانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا اور سینکڑوں ادباء و صوفیاء کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح خراسان مکمل طور پر ویران ہو گیا۔ابھی چنگیز خان کے حملوں کے زخم نہیں بھرے تھے کہ اس کے پوتے نے خراسان پر حملہ کر دیا، اس کی نظریں تمام ایران پر تھیں۔ اس نے ایران میں اسماعیلیوں اور بغداد میں عباسیوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اب منگول یعنی ایلخانی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت کے ظلم و ستم کی انتہا کے نتیجے میں آخری ایامِ حکومت میں ستروار اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں عوام بغاوت پر آمادہ ہوئے اور خراسان کے پہلے شیعہ خاندان نے سربداران کے نام سے حکومت قائم کی۔ سربداران نے خراسان کے اہم علاقوں پر تسلط حاصل کر لیا اور ستروار کو اپنا مرکز بنایا۔ انھوں نے ۷۳۶۔۷۸۸ ھ تک حکومت کی اور بعد ازاں تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست کھائی۔ ۷۸۱ھ ق میں خراسانی ابھی منگولوں کی تباہیوں کے اثرات نہ مٹا پائے تھے کہ تیمور لنگ کے ظالمانہ حملوں کا شکار ہو گئے۔بااین ہمہ تیمور کی حکومت میں سمرقند جو قدیم خراسان کا حصّہ تھا، دا ر الحکومت قرار پایااور تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ تیمور کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اور دوسرے جانشین ’’شاہرخ مرزا‘‘ نے ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا اور خراسان میں امن و امان اور خوشحالی کی فضا پیدا ہوئی۔ لیکن یہ صورتحال بھی دسویں صدی ہجری کی پہلی دہائی میں ازبک کی یورش سے بدل گئی۔ تیموری حکومت کا شیبک خان ازبک کے ہاتھوں خاتمہ ہوا اور اس دہائی میں خراسان کے تمام شہر ازبک کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے اور اہلِ خراسان کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔۹۰۷ ھ ق میں صفوی حکومت کے قیام سے ایک بار پھر خراسان میں امن و امان قائم ہوا اور شاہ طہماسب اور شاہ عباس نے ازبکوں کو مشرقی ایران سے باہر کیااور خراسان کے شہروں اور خاص طور پر مشہد کی آبادی کی کوششیں کیں اور صفوی دورِ حکومت کے آخر تک خراسان ایران کا ایک اہم مرکز تھا۔ اس خاندان کے سقوط کے بعد کچھ عرصہ تک افغانیوں کی کشمکش کا شکار رہا لیکن پھر اس بے سکونی کے دور کا خاتمہ بھی ، خراسان کے نادر شاہ افشار کی ہمت سے ہوا، اور نادر شاہ کی موجودگی سے خراسان ایران کی سیاسی تبدیلیوں کا مرکز بنا رہا، اور ۱۱۶۰ ھ ق میں نادر شاہ کی وفات اور اس کے جانشینوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ایک بار پھر ایران اور خراسان ہرج و مرج کا شکار ہوئے۔ آخرکار نادر شاہ کے پوتے شاہرخ میرزا نے اس ریاست کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اس نے کریم خان زند کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی اپنی حکومت قائم رکھی لیکن بالآخر قاجاری حکومت کے بانی آغا محمد خان قاجار کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوا۔

 

قاجاری دور میں خراسان کا مختلف حصوں میں تقسیم ہونا:

قاجاری عہد ایران و خراسان کے لیے انتہائی تلخ ثابت ہوا۔ اس دور میں خراسان کا ایک بڑا حصّہ اس سے جدا ہو گیا۔ ہندوستان میں برطانوی استعماری راج کی وجہ سے روس اور ہندوستان کے درمیان افغانستان کی حدِّ فاصل ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ کا مرکز رہا، انگریزوں نے افغانستان کے بعض امرأجن کا تعلق ایران سے تھا، کو اس کے خلاف بھڑکایا اور جب محمد شاہ قاجار نے ہرات کا محاصرہ کیا تو اس نے جزیرہ خارک پر قبضہ کر لیا تا کہ شاہ ایران کو اس شہر اور افغانوں کی سرکوبی کے ارادے سے باز رکھیں۔ محمد شاہ کے بعد اس کے بیٹے ناصرالدین شاہ نے بھی کوشش کی کہ ہرات کو اپنی حکومت کا مطیع بنا لے لیکن اس بار بھی انگریزوں نے خارک اور بوشہر پر چڑھائی کر دی جو اس کے ارادے میں رکاوٹ بنی۔ بالآخر ۱۲۷۳ ھ ق میں ایران اور برطانیہ کے درمیان پیرس میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ہرات ایران سے جدا ہو گیا اور قاجاری حکومت نے افغانستان کی مستقل حکومت کو قبول کر لیا۔اسی دور میں برطانیہ کی مانند روس بھی خراسان پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا تا کہ اس سرزمین کے شمالی حصّہ کو اپنی حکومت کا حصّہ بنا لے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے روس نے کوئی حملہ نہیں کیا البتہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سرخس سے بھی آگے تک پیش قدمی کو ممکن بنایا۔ مرو اور اس کے مضافات پر قبضہ کیا اور قاجاری حکومت کو اس حکمت عملی کے سامنے مجبور ہو کر سر کو جھکانا پڑا۔ لہٰذا عہدِ اسلامی میں خراسان کے چار حصّوں میں سے تین یعنی ہرات اور بلخ کو افغانستان میں اور مرو کو ترکمانستان میں شامل کیا گیا اور یوں یہ علاقے سرزمینِ ایران سے الگ ہو گئے اور قدیم تہذیب و تمدن کا درخشاں ستارہ محدود ہو کر رہ گیا۔ البتہ خراسانی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کے عوام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہوشنگ ابتہاج (ھ۔ا۔ سایہ)کے مطابق :

 

باغہا را گرچہ دیوار و در است

از ہوا شان راہ با یکدیگر است

شاخہ ہا را از جدائی گر غم است

ریشہ ہا را دست در دست ہم است

 

اگر باغ کے گرد در و دیوار بنا دی جائے لیکن ان کی ہوائیں ایک دوسرے کو پہنچتی ہیں، اگرچہ اس باغ کی شاخیں جدائی کے غم میں گریہ کناں ہیں لیکن ان کی جڑیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔

۱۳۸۰ ھ ش میں طبس اور اس کے مضافات خراسان سے جدا ہو گئے اور ملکی تقسیم میں صوبۂ یزد کا حصّہ بن گئے۔ اسی طرح ۱۳۸۲ ھ ش میں خراسان تین حصّوں میں تقسیم ہو گیا، شمالی خراسان، بجنورد کے مرکز کا خراسان رضوی جس کا مرکز مشہد اور جنوبی خراسان جس کا مرکز بیر چند قرار پایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج عظیم خراسان سے ایران و توران کی سرحدوں کے نشان بھی باقی نہ رہے۔

 

خراسان کی تہذیب (وحدت اور کثرت کی داستان):

 

خراسان کی ثقافت کو بھی اس کی تاریخ کی مانند ملک کی سیاسی تقسیم کے بجائے عظیم خراسان کے تناظر میں ہی دیکھنا چاہیے کیونکہ جغرافیائی حدود ثقافتی حدود سے مماثلت نہیں رکھتیں۔ خواہ ان کے نقشہ پر جغرافیائی تقسیم کی کتنی ہی لکیریں کھینچ دے اور اس کو کئی حصّوں میں تقسیم کر دے یا اس کی کئی شاخیں اس سے جدا ہو جائیں۔ اس سرزمین کی سیاسی تاریخ کے مطالعہ سے یہ جان سکتے ہیں کہ اس کی ثقافت کیسی ہے، یہاں کے لوگوں کا طرزِ بودو باش کیا ہے؟ جنگوں سے بھرپور سیاسی حالات کے باوجود خراسان کی ثقافت درخشاں، تابناک اور علم و ادب کے حوالہ سے انتہائی غنی ہے۔ حملہ آوروں کے لگاتار حملوں، جنگوں اور تخت و تاراج کی صورتحال سے دوچار ہونے کے باوجود خراسان میں قومی، مذہبی، زبان و ادب اور رسوم و رواج میں حیرت انگیز تنوع نظر آتا ہے۔ گویا ہر قوم اور ثقافت نے خراسان پر اپنے نقوش ثبت کیے اور اس طرح اپنے تشخص کی چھوٹی بڑی نہریں جاری کر دیں۔اس کے علاوہ ثقافتی تنوع میں جغرافیہ کے کردار کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ خراسان کے شما ل سے جنگل کو راستہ جاتا ہے اور جنوب میں صحرا کی طرف راستہ نکلتا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک جنگل نشیں کسی صحرانشیں جیسی زندگی بسر نہیں کر سکتا اور نہ ہی ان کے اعتقادات، رسوم و رواج اور قوانین ایک جیسے ہو سکتے ہیں جو مختلف زندگی گزارنے والوں کو ایک دوسرے کے تابع کر سکیں۔ اس اعتبار سے خراسان میں شہری اور دیہاتی، خانہ بدوش اور کسان، مویشیوں کی دیکھ بھال کرنے والے اور صنعت کار سب کا طرزِ حیات جدا جدا ہے۔ مختلف مذاہب کے پیروکار باہم زندگی بسر کرتے ہیں اور ہر گروہ اپنے مخصوص انداز، لہجہ اور زبان میں ہی بات کرتا دکھائی دیتا ہے۔ ہر علاقے کے اپنے مخصوص آداب زندگی ہیں: یعنی ہر نوع کی ثقافت ایک وحدت میں ملتی ہے۔ یعنی خراسان میں ہر قوم ایک مختلف رنگ و نسل اور مذہب کا رنگ لیے ہوئے ہے لیکن یہ اپنا منفرد تأثر بھی رکھتا ہے۔ خراسان نے کرد، عرب، ترک، ازبک اور منگول سب کو اپنے دل میں جگہ دی ہے لیکن خود نہ وہ کرد ہے اور نہ عرب، نہ ترک اور نہ ہی ازبک اور نہ منگول، بلکہ صرف خراسانی ہے اور سب سے بڑھ کر ایرانی ہے۔

 

خراسان کے قبائل:

 

یہ ایک طویل سفر ہے لہٰذا اس کے بارہ میں مختصر ذکر کریں گے۔ خراسان میں بسنے والے قبائل کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ’’گرایلی‘‘ منگول نسل سے ہیں اور تیمور لنگ کے حملہ کے وقت خراسان میں آئے تھے۔ تیمور نے شام پر حملہ کے وقت ’’شاملو‘‘ قبیلہ کو ہجرت کر کے یہاں آنے پر مجبور کر دیا تھا۔ خراسان کے شمال میں زیادہ تر کرد ہیں جو قوچان کے اطراف میں پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ شاہ عباس کے دور میں ازبک کی یورش کو روکنے کے لیے خراسان کی طرف دھکیلے گئے۔ بعدازاں انھوں نے یہیں بودوباش اختیار کر لی۔ ترکمان یا ازبک نے کبھی مہاجرت یا یورش سے چشم پوشی نہیں برتی۔ یہ خراسان کے شمالی علاقوں میں آباد ہیں۔ آج یہاں نہ تو مہاجر ہیں اور نہ ہی مہاجمین بلکہ سب مکمل طور پر صرف خراسانی ہیں اور اپنی سرزمین سے عشق کرتے ہیں۔ مجموعی اعتبار سے شمال اور مشرق میں ترکمانوں کے بیالیس قبیلے آباد ہیں۔ اس کے علاوہ کرد قوم کے بھی کئی قبیلے آباد ہیں۔ ہزارہ، تیمنی، تیموری اور جمشیدی۔ خواف سے باخزر میں بامیان افغانستان کے پہاڑی سلسلہ میں آباد ہیں۔ تیموری، خوافی، سلجوقی اور بربری تربت جام اور تابیاد میں نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سرخس کے علاقہ میں عرب، بہلوئی، سیستانی اور بلوچ مقیم ہیں، انھوں نے ناصرالدین شاہ کے دور میں سرخس کی طرف ہجرت کی تھی۔ ان کے علاوہ دیگر اقوام بھی ہیں جو اپنی قبائلی شناخت رکھتی ہیں ورنہ خراسان میں ایک فرد بھی اس بات کا دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اس کے آباو اجداد منگولوں یا وسطی ایشیا کی اقوام کے ساتھ حقیقی رشتہ رکھتا ہے یا اس کی رگوں میں کردوں اور عربوں کا خون نہیں دوڑ رہا۔ ابراق کے باقی لوگ بھی ایسی ہی وضعداری کے حامل ہیں لیکن یہاں محض اہلِ خراسان کی بات کی جا رہی ہے۔

 

اہلِ خراسان کا مذہب:

 

خراسان میں لوگوں کی اکثریت شیعہ مذہب سے تعلق رکھتی تھی اور بلاشبہ خراسان میں امام ہشتم ؒ کی بارگاہ حرم بھی اہلِ تشیع کے لیے باعثِ ضمانت ہے۔ یہاں اہلِ سنت بھی موجود ہیں کہ جن کی جڑیں خراسان میں ہیں، وہ خواف اور تربت جام میں امام ابو حنیفہ کے پیروکار ہیں۔ اسماعیلیہ شیعہ جنھوں نے امام صادقؒ کے بعد بارہ امامی شیعوں سے الگ راستہ اختیار کیا، یہ لوگ مشہد اور نیشاپور کے درمیانی علاقہ میں آباد ہیں۔ اس کے علاوہ ارامنہ (مسیحی) اور یہودی بھی اقلیت میں آباد ہیں۔ اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مہاجرت کے باعث ان کی تعداد کم ہو رہی ہے۔

 

خراسانی زبان اور لہجے:یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ہماری قومی زبان دری کا لہجہ (البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں تبدیلیاں آ چکی ہیں) خراسانی ہے۔ یہ قدیم زبان ہے جیسا کہ بیہقی، بلعمی اور ابوریحان البیرونی کی زبان بھی یہی تھی اور طبس، فردوس، گناباد، بیر جند، قاین، سرخس اور کاشمر میں بھی یہی زبان اور لہجہ رائج ہے۔ مقامِ افسوس ہے کہ میڈیا یعنی ٹی وی کے چینلز وغیرہ کی مدد سے یکساں ثقافت پیش کرنے کی کوشش میں یہ زبان بتدریج ناپید ہو رہی ہے لیکن تاحال اہلِ خراسان کی اکثریت کی زبان فارسی ہے۔ یہاں ہر گروہ کا اپنا مخصوص لہجہ ہے مثلاً مشہدیوں کی زبان خاص و عام کی زبان ہے۔ شمال میں کردی زبان رائج ہے۔ مجموعی طور پر چند خراسانی زبانیں عام ہیں اور ہر کوئی یہ جانتا ہے کہ:’’ہمدلی از ہم زبانی خوش تر است‘‘۔یعنی ہمدلی ہم زبانی سے بہتر ہے۔ اس بحث کو سمیٹتے ہوئے خراسانِ رضوی پر بات کریں گے۔

 

خراسان رضوی، خراسان عظیم کی وراثت:جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ ۱۳۸۲ ھ ش میں خراسان کا صوبہ مجلس شوریٰ کے نمائندوں کے ووٹ سے تین حصّوں میں منقسم ہو گیا۔ شمالی خراسان، جنوبی خراسان اور خراسان رضوی۔ چند شہروں کے علاوہ باقی تمام بڑے شہر وسیع اور گنجان آباد خراسان رضوی کے صوبہ میں واقع ہیں۔ اس لیے ہم فقط اسی سے متعلق بات کریں گے۔ خراسان رضوی، شمالی خراسان کے صوبہ سے سمنان اور یزد سے اور جنوبی خراسان دو ممالک افغانستان و ترکمانستان کا ہمسایہ ہے۔

 

خراسان کا انسانی جغرافیہ:

 

آخری مردم شماری کے مطابق خراسان رضوی کی آبادی ۴۷۴۴۲۶۸ افراد پر مشتمل ہے۔ جو چند بڑے شہروں مثلاً تایباد، تربت جام، حیدریہ، چناران، خواف، خلیل آباد، سرخس، فردوس، فریمان، قوچان، کاشمر، کلات، گنا آباد، مشہد اور نیشاپور میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ۶۴ فیصد شہروں میں اور ۳۶ فیصد دیہات میں رہتے ہیں۔ یہ آبادی تین اقسام کے شعبوں سے وابستہ ہے:۱۔ کھیتی باڑی: اس میں کاشتکاری، حیوانات کی پرورش، شکار، جنگل اور ماہی گیری کے پیشے شامل ہیں۔۲۔ صنعت: معدنیات کا اخراج، صنعت، پانی، بجلی، گیس اور معماری کا کام۳۔ سروس: تجارت، ہوٹلنگ، ریسٹورنٹ، نقل و حمل، کمیونی کیشن، سٹور، بنک، انشورنس، ملکیت (جائیداد)، قانون، مفادعامہ کی خدمات وغیرہ۔خراسان کی طرف دوسری اقوام کی ہجرت یہاں کے اہم ترین معاشرتی مسائل میں سے ایک ہے۔ صوبہ خراسان کے دیہاتی لوگ مفلسی کے باعث ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے شہر بہ شہر ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ مشہد چونکہ زیارتی مقام ہے لہٰذا یہاں رفاہی، اقتصادی، صنعتی ترقی کی بدولت اور دارالحکومت ہونے کی وجہ سے یونیورسٹیوں کے قیام کے باعث لوگ اس کی طرف ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ تنازعات کے باعث اور جنگ زدہ علاقوں مثلاً افغانستان سے افغانی بھی اس کی طرف آتے رہے۔ گذشتہ چند سالوں سے عراق میں جنگ کی وجہ سے بھی یہاں مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ یہ ایک فطری عمل ہے کہ تمام افراد کی ضروریاتِ زندگی پوری ہوتی ہیں اور وہ سہولیات سے مستفید ہوتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں یہاں معاشی و معاشرتی ناہمواریاں بھی پیش آئیں، لیکن اہلِ خراسان نے ان تمام مشکلات کو خندہ پیشانی سے کیا ہے۔

 

خراسان کا قدرتی جغرافیہ:

 

خراسان کی آب و ہوا دو عوامل کی وجہ سے ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہے، ایک تو مغرب، شمال مغرب اور شمال مشرق کی جانب ہواؤں کی آمد اور دوسری جانب شمال کے بلند و بالا پہاڑ اور جنوب کے صحرا، ہر کوئی اپنی خاصیت کے باعث اس کی آب و ہوا پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اس صوبہ کے جنوب میں بجنورد (شمالی صوبہ کا مرکز) ہے، الادغ اور بینیابور کی سطح مرتفع کے سلسلے نیشاپور تک پھیلے ہوئے ہیں۔ یہاں کوہستانی سرد ہوائیں چلتی ہیں اور قوچان اور کپہ داغ، ہزار مسجد سطح مرتفع کا سلسلہ ترکمانستان سے سرخس تک جاتا ہے، یہاں کوہستانی معتدل آب و ہوا ہے۔ پہاڑوں کے نیچے میدانوں اور نیم صحرائی علاقوں میں ملائم و معتدل آب و ہوا ہے جبکہ صوبہ کے جنوبی حصّہ میں گرم و خشک صحرائی آب و ہوا کے علاقے ہیں۔ اس صحرا کا زیادہ تر حصّہ صوبہ خراسان کے جنوب میں واقع ہے۔خراسان رضوی کی بلندیوں میں وسیع درے اور آبشاریں نظر آتی ہیں جہاں زراعت کے وسیع ذرائع موجود ہیں۔ اس کے اہم ترین صحرا دشت مشہد، قوچان، تربت جام، نریمان، نیشاپور، سبزوار، تربت حیدریہ اور کاشمر قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ خراسان کے پہاڑی سلسلے اپنے دامن میں دریا بھی سموئے ہوئے ہیں جن کا وجود انسانی زندگی کے لیے ایک بڑی نعمت ہے۔ دو دریا اترک اور کشف صوبہ کے شمال میں اور کالشور اور جوبن خراسان رضوی کو سیراب کرتے ہیں۔ لیکن آخری ادوار میں گہرے کنوؤں کی کھدائی اور پانی کے بے جا استعمال سے اس میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ لہٰذا پانی کے مزید زیرِ زمین استعمال کو ممنوع قرار دیا گیا ہے۔خراسان کی متنوع آب و ہوا کی وجہ سے یہاں تین قسم کی نباتاتی پیداوار ملتی ہیں۔ اول: جنگل، جو صوبہ کے شمال میں واقع ہے اور زیادہ تر جنگل تنگ اور گھنے نہیں ہیں۔ دوم: گھاس کے میدان، تمام تر صوبہ میں مختلف انواع و اقسام کے میدان پائے جاتے ہیں۔ سوم: چراگاہیں، جو صوبہ کے شمال میں نسبتاً بہترین حالت میں ہیں لیکن جنوبی علاقہ میں ان کی حالت ابتر ہے۔ اس سلسلے میں بھی غیر منظم چراگاہیں ان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہیں۔

مشہد

 

بارہ سو برس قبل مشہد ایک چھوٹا سا گاؤں تھا خراسان کے صوبے میں اس کے نزدیک ،20 کلومٹر کے فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جس کا نام طوس تھااب طوس اور مشہد تقریبا ایک ہی شہر بن چکے ہیں۔تاریخی حوالے سے خراسان ایران کا ایک اہم اور قدیم صوبہ تھا۔ اس میں وہ پہلے وہ تمام علاقہ شامل تھا جو اب شمال مغربی افغانستان ہے۔ مشرق میں بدخشاں تک پھیلا ہوا تھا۔ اور اس کی شمالی سرحد دریائے جیحوں اور خوارزم تھے۔ نیشاپور ، مرو ، ہرات اور بلخ اس صوبے کے دارالحکومت رہے ہیں۔ اب اس کا صدر مقام مشہد ہے۔ اور مشرقی خراسان مع شہر ہرات افغانستان کی حدود میں شامل ہے۔نیشابور ، ایران کا ایک قدیم شہر صوبہ خراسان کا پہلے صدر مقام بہت پرانا اور تاریخی شہر ہے جس میں خیام رہ رہے تھے ۔سناباد یا نوغان اس گاؤں کا نام ہے جو اب مشہد بن گیا ہے اور مشہد کے ایک محلے کا نام بھی ہے بڑے ہوتے ہوئے اس میں کئی ایک گاؤں شامل ہوگئے ۔عباسی دور مین صوبہ خراسان کے اس گاؤں میں امام علی رضا (ع) کی شہادت ہوئی۔ اسی شہادت کی مناسبت سے طوس کا یہ علاقہ مشہد کے نام سے مشہور ہوگیا۔ مشہد کا مطلب ہے جائے مدفن شہید اور اسی مناسبت سے اسے مشہد الرضا کہا جاتا ہے۔ لیکن حضرت امام رضا(ع) خراسان کیوں آگئے ؟ اس بات کی وضاحت کے لیے تاریخ میں ایسا لکھا گیا ہے کہ شیعوں کا آٹھویں امام حضرت امام رضا (ع) اپنے والد گرامی حضرت امام موسی کاظم(ع)کی بغداد کے زندان میں شھادت کے بعد سن 183 ھ ق میں امامت پر فائض ہوئے ۔آنحضرت اپنے دور امامت میں اٹھارہ سال مدینہ منورہ میں قیام پذیر تھے اور اس دوران ھارون رشید اور اسکے دو بیٹوں امین اور مامون کی غاصبانہ خلافت کے بھی شاھد رہے اور سن 200 ھ ق کو مامون نے امام کو خراسان (ایران) آکر اسکی حکومت میں شریک ہونے کی دعوت دی ۔جس طرح مامون عباسی سے نقل کیا جارہا ہے کہ اس نے نذر کی تھی کہ اگر اپنے بھائی امین کے ساتھ جنگ میں کامیاب ہوکر خلافت کو پہنچا تو حکومت ان کے حقدار کو یعنی آل ابیطالب (ع) کے افضل ترین شخص کے تحویل میں دے گا ۔(1)جب سن 198 ھ ق کو اپنے بھائی پر غالب آیا اور بغداد کو فتح کر کے عالم اسلام پر حاکم ہوا تو اس نے چاہا اپنے نذر کا وفا کرے اور اس ضمن میں امام علی بن موسی الرضا علیہ السلام کو آل ابی طالب (ع) میں سے افضل ترجانا ۔ وہ کہتا تھا کہ: ما اعلم احدا افضل من ھذا الرّجل علي وجہ الارض؛ میں روی زمین پر اس شخص (امام علی بن موسی الرضا (ع) سے بڑ کر کسی کو بہتر اور با فضیلت نہیں جانتا۔(2)اس طرح اس نے اپنے سرداروں میں سے " رجاء بن ابی ضحاک " نامی سردار کو عیسی جلودی کے ساتھ مدینہ روانہ کیا تاکہ امام رضا علیہ السلام کو خراسان آنے کا دعوت دیں ۔(3)امام رضا علیہ السلام چونکہ بنی عباسی خلیفوں کی مکر و فریب سے بخوبی واقف تھے اس لئے دعوت قبول کرنے سے اجتناب کیااور "مرو " ( مامون کا دار الخلافہ) جانے سے مدینہ میں رہنے کو ہی ترجیح دی۔مگر مامون کے اصرار کے سامنے کچھ نہ چلی اور ناچار دعوت کو قبول کیا ۔ آنحضرت نے اپنے جد رسول خدا(ص) اور جنت البقیع میں اپنے بزگوں کی قبروں خاص کر والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ زھرا (س) کی قبر کو الوداع کیا اور اپنے چھوٹے فرزند حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو مدینہ میں اپنا جانشین قرار دے کر مامون کے کارندوں اور اپنے چند دوستوں اور علویوں کے ھمراہ خراسان کی طرف روانہ ہوے ۔جب امام رضا علیہ السلام " مرو " پہنچے تو لوگوں کی طرف سے از جملہ فقھا ۔ دانشمندوں ، شاعروں ۔ درباریوں اور خود مامون کی طرف سے بے نظیر اور والہانہ استقبال ہوا ۔مامون نےاستقبال اور خاطر داری کے بعد امام رضا علیہ السلام سے کہا : میں خلافت سے کنار ہوکے خلافت کو آپ کے سپرد کرنا چاہتا ہوں، کیا آپ اس کو قبول کر لیں گے ؟امام رضا علیہ السلام نے انکار کیا ۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹ کہتا ہے عملا ایسا کرنا نہیں چاہتا بلکہ اس طرح امام کو آزمامانا چاہتا تھا اور اگر حکومت کو امام (ع) کے حوالے کر بھی لیتا کچھ مدت بعد ان کو حکومت سے برکنار کرلیتا اور خود دوبارہ حکومت کو ہاتھ میں لے کر اپنی غاصب حکومت کو جائز بنادیتا ۔اور دوسری طرف علوی اور غیر علویوں کی طرف سے جہان اسلام میں جو بغاوت کی لہر دوڑ رہی تھی ، اسکو خاموش کرانے کیلئے امام رضا علیہ السلام کاسہارا لینا اس کیلئے ناگزیر تھاتاکہ انہیں عباسی خلافت کو قبول کروا‎لے زیر کے سکے ۔امام رضا علیہ السلام چونکہ اسکی اصلی نیت سے با خبر تھے اس لئے کسی بھی صورت میں خلافت کو قبول نہیں کیا ۔ مامون نے پھر ایک بار ولی عھدی قبول کرنے کی دعوت دی لیکن امام (ع) نے قبول نہیں کیا ۔ مگر اس بار مامون نے امام رضا(ع) کا استنکاف قبول نہیں کیا اور کہا کہ ولی عھدی قبول کرنا زبردستی اور حتمی ہے اس سے راہ فرار نہیں ہے ۔ آخر کار امام رضا علیہ السلام کیلئے ولی عھدی کو قبول کرنے کے سوا کوئی راستہ نہ رہا ۔ آنحضرت نے حکومت میں شریک نہ رہنے کیلئے عوام سے اپنے لئے بیعت حاصل کی ۔ اسکے بعد عباسیوں کے کالے کپڑے سبزرنگ میں جوکہ علویوں کا رنگ ہے تبدیل ہوگیا ۔ عباسیوں کے کالے رنگ کے جھنڈے علوی سبز رنگ میں تبدیل ہوگئے۔ آنحضرت کے نام کا سکہ جاری ہوا اور خطبوں میں انکی تجلیل اور تکریم ہونے لگی ۔لیکن جو حکومت کی خاطر اپنے بھائی کو قتل کروایا کیا رسول خدا(ص) کے نواسے کو حکومت دیتا ہےوہ آخر امام(ع) کی جان لینے کے درپے ہوگیا اور وہی خاموش حربہ جوان معصومین علیہ السّلام کے ساتھ اس کے پہلے بہت دفعہ استعمال کیا جاچکا تھا کام میں لایا گیا۔ انگور میں جو بطور تحفہ امام علیہ السّلام کے سامنے پیش کیے گئے تھے زہر دیا گیا اوراس کے اثر سے 71صفر 302ھ میں حضرت علیہ السّلام نے شہادت پائی۔ مامون نے بظاہر بہت رنج وماتم کااظہار کیا اور بڑے شان وشکوہ کے ساتھ اپنے باپ ہارون رشید کے قریب دفن کیا۔ جہاں مشہد مقدس میں حضرت علیہ السّلام کا روضہ ہے وہیں اپنے وقت کا بزرگ ترین دنیوی شہنشاہ ہارون رشید بھی دفن ہے جس کا نام و نشان تک وہاں جانے والوں کو معلوم نہیں ہوتا۔مشہدِ مقدس اور قُم ایران کے دو ایسے شہر ہیں جنہیں دنیائے شیعت میں مکّہ، مدینہ، نجفِ اشرف اور کربلا کے بعد اہم ترین زیارات تصور کیا جاتا ہے اور یہاں صدیوں سے سال بھر ساری دنیا سے آنے والے زائرین کا ایک تانتا بندھا رہتا ہے۔ایک سرکاری اندازے کے مطابق سال بھر میں دو کروڑ سے زیادہ زائرین مشہدِ مقدس میں آتے ہیں۔ ایران میں آنی والی حکومتیں طاہریاں، صفاریاں ،سامانیاں ،سلجوقی سلطنت اور خوارزمشاہیاں کے دور میں رفتہ رفتہ مشہد الرضا کی اہمیت بڑھنے لگی خاص طور پر سلجوقی دور میںسلجوقی سلطنت 11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے ۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔خوارزمشاہیاں کے دور میں چنگیز خان کے یلغار شروع ہوا چنگیز خان نے اپنے آپ کو منگول سلطنت کاحاکم ایلان کیا۔اورخراسان حملہ کیا انسانی تاریخ میں اتنی وسیع تباہی اورخرابی کوئی دوسری نہیں ملتی۔چنگیز خان اور ہلاکو خان کے یلغار کے بعد خراسان کے شہروں میں ویرانی بری طرح پھیل گئیہلاکو خان کی اولاد جا ایران اور عراق پر حکمران رہی مسلمان ہو گئے۔ سنہ 737 ہجری قمری کو ایران کے خراسان میں منگول حکمرانوں کے خلاف سربداران تحریک کامیاب ہوئی اور اسی نام سے پہلی بار ایران میں ایک شیعہ حکومت کی بنیاد رکھی گئی ۔سربداران ایک گروہ تھا جس نے منگولوں کے ظلم و ستم کے خلاف تحریک شروع کی ۔ان افراد کی قیادت شیخ خلیفہ ، شیخ حسن جوری اور عبدالرزاق جیسے مجاہد علماء نے کی ۔تحریک چلانے والوں کا نعرہ یہ تھا کہ یا ظالم کو ختم کردیں گے یا دار پر چڑھ جائیں گے ذلت قبول نہیں کریں گے اسی بنا پر ان کا نام سربداران پڑگیا ۔ سربداران نے تقریبا" نصف صدی تک ایران کے شمال مشرقی علاقوں پر حکومت کی ۔ اس عرصے مشہد اور سبزوار مین رونق آگئیآخر کار تیمور گورگانی نے سنہ 788 ہجری قمری میں ان کی حکومت کا خاتمہ کردیا۔ تیمور نے سربداروں کو فنا کیا۔ 85۔ 1384ء میں ستر ہزار انسانوں کے قتل کے بعد اس مہم کا خاتمہ ہوا۔تیموریاں کے بعد صفوی سلطنت وجود میں آگئی ایران میں اسلامی فتوحات کے بعد جو سب سے بڑی حکومت قائم ہوئی وہ 1501ء سے 1722ء تک قائم رہنے والی صفوی سلطنت تھی۔ جس نے تیموریوں کے بعد ایران میں عروج حاصل کیا. اس حکومت کا بانی شاہ اسماعیل ایک بزرگ شیخ اسحاق صفی الدین (متوفی 1334ء) کی اولاد میں سے تھا چنانچہ انہی بزرگ کی نسبت سے یہ خاندان صفوی کہلاتا ہے ۔شاہ اسماعیل نے شیعیت کو ایران کا سرکاری مذہب قرار دیا اور عباس اعظم نے ایران کے وسط میں اصفہان کو دارالسلطنت بنایا۔عباس نے اصفہان کو اتنی ترقی دی کہ لوگ اس کو "اصفہان نصف جہان" کہنے لگے۔ اس زمانے میں اصفہان کی آبادی 5 لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ یہاں ایسی شاندار عمارتیں تعمیر کی گئی جو قسطنطنیہ اور قاہرہ کو چھوڑ کر اس زمانے کے کسی شہر میں نہیں تھیں۔ اس دور میں مشہد بڑی تیزی سے پھلنے پھولنے لگامشہد میں امامِ رضا کے روضےکی صدیوں پرانی اور طویل تاریخ ہے۔ کوئی ساٹھ ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا یہ ایک وسیع و عریض کمپلیکس ہے جس کی توسیع اور آرائش کا کام ہر دور حکومت میں ہوتا رہا اور جو اب بھی جاری ہے۔ مشہد کی آبادی 2500000 تک پہنچ گئی ہے تہران سے روزانہ کوئی پندرہ کے قریب پروازیں مشہد جاتی ہیںپروازوں میں کاروباری لوگوں کے علاوہ ایک بہت بڑی تعداد اُن زائرین کی ہوتی ہے۔مشہد میں اور بھی بہت سے تاریخی اور تفریحی مقامات ہیں جو سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ ان میں چند مشہور مقامات درج ذیل ہیں ۔

مسجد جامع گوهرشاد، گنبد خشتی، پير پالان دوز، گنبد سبز، امامزاده ناصر،گنبد هارونیه ،موزه نادر شاهکلات نادريمسجد هفتاد و دو تنمدرسه عباسقلي خانمصلي مشهدرباط طرقبقعه تاريخي امام زاده يحييروستاي تاريخي پاژميل اخنگانرباط فخر داودگنبد خشتي

خراسان شمالی

شمالي صوبہ خراسان کے مرکز بجنورد سے تراسي کيلوميٹر اور شروان کے جنوب مشرق ميں تقريبآ 28 کيلوميٹر کے فاصلے پر ايک گاۆں ، دشت بہشت يا زاويريم واقع ہے- يہ سطح سمندر سے 1300 کيلوميٹر کي بلندي پر واقع ہے اس گاۆں کا موسم معتدل ہے-اس گاۆں ميں سے بہنے والے درياۆں کي بدولت يہاں پر پاني کي کثرت ہے- زاوريم کي تاريخ کئ سو سال پراني ہے-قاجار حکمرانوں ميں سے ايک نصيرالدين شاہ نے اپنے سفرنامے ميں زاوريم کي خصوصيات اور اس کے متعلق اپنے مشاہدات کو بيان کيا ہے-زاوريم ميں تاريخ کي دو اہم نشانياں، دست رز عرق اور قزلار قلعہ ہيں- يہاں کے مقامي باشندے جو کہ ترکي ،فارسي اور کرد زبان کا استعمال کرتے ہيں وہ زيادہ تر شيعہ مسلمان ہيں- گاۆں کے سب باشندوں کي زيادہ آمدني کا ذريعہ فصل ،جانور، باغباني اور دستکاري ہے. وہ لوگ خشک زمين کو کاشت اور سيراب کرکے اپني روزي روٹي کا بندوبست کرتے ہيں .يہاں کي قابل قدر زرعي مصنوعات ميں گندم، جو، آلو، چقندر ہيں. انگور، چيري، خوباني، آڑو، بادام اور کشمش کا شمار گاۆں کے اہم پھلوں ميں ہوتا ہے-مويشيوں اور بھيڑوں کي نسل کشي کا عمل بھي عام ہے اور اسي طرح گوشت اور دودھ کي مصنوعات دودھ، دہي اورمکھن بھي، گاۆں ميں پيدا ہوتے ہيں-گاۆں کے لوگ چکري ،جيرا سميت مختلف طبي اور خوردني پودوں کو جمع کرکے مارکيٹوں ميں فروخت کرتے ہيں - چاليس جڑي بوٹيوں کا عطر گاۆں کي طبي مصنوعات ميں سے ايک ہے اور يہ بيماريوں کے علاج کے لئے استعمال کيا جاتا ہے - گاۆں کي خواتين قالين بننے کي مشق کے ساتھ ساتھ زرعي

سرگرميوں ميں بھي تعاون کرتي ہيں - اس طرح معاشي سرگرميوں ميں خواتين بھي مردوں کا ہاتھ بٹا کر ان کے شانہ بشانہ زندگي کي گاڑي کو چلا رہي ہيں - يہ گاۆں ايک ڈھلوان پر واقع ہے جو گنجان آباد ہے - گاۆں کي خوبصورتي اور پرانے طرز تعميرات کے ساتھ چشموں اور سبز باغات نے اس گاۆں کے حسن ميں خاطر خواہ اضافہ کيا ہوا ہے-گھروں کي ساخت اور اندروني مکانات ديہاتيوں کي طرز زندگي اور سرگرميوں کو ظاہر کرتي ہے - گھروں کي زيادہ تر چھتيں عام سي ہيں، اور ديواريں عام طور پر مٹي کي بني ہوئي ہيں. نئے گھروں کي تعمير ميں سيمنٹ، اينٹ، سٹيل بيم اور چاک کا استعمال کيا جاتا ہے جبکہ مٹي، پتھر اور لکڑي کو پراني عمارتوں ميں استعمال کيا گيا ہے - زاويريم گاۆں مختلف قدرتي سياحتي مقام ہے. زاويريم سے ريزورٹ تخت مرزا اورشکري کي پہاڑي وادي تک 25 کلوميٹرکا فاصلہ ہے. اس علاقے ميں چشمے، جھرنے، تالاب، اونچے پہاڑ، باغات، نہريں، مرغزاراور مختلف طبي اور خوردني پودے خوبصورت قدرتي منظر پيش کرتے ہيں-دريائے زاوريم تخت مرزا کے پہاڑي چشموں سے نکلتا ہے اور زاوريم گاۆں اور اسکے راستے ميں آنے والے کئي دوسرے ديہاتوں کے کھيتوں اور باغات کو سيراب کرتا ہے- يہ دريا ‎،‎ دريائے اٹراک ميں گرتا ہے اور اس کےکنارے سياحوں کے لئے مثالي ہيں. - اس علاقے ميں تين چشمے ہيں جو پہاڑوں کي ڈھلوانوں سے نيچے وادي کي طرف بہتے ہيں -ان چشموں کے ارد گرد کا علاقہ سرسبز اور خوبصورت ہے- زارويم کے پرکشش مقامات ميں دو چشموں دامچي اور يکخدان کا شمار بھي ہوتا ہے-شاہ خري کا علاقہ اخروٹ اور دوسرے پھلوں کے درختوں کي وجہ سے گرميوں ميں سياحوں کے لۓ بہت پرکشش ہے- وہاں شاہ خري ميں زيادہ پاني کے چشموں کي ايک بڑي تعداد ہے اور يہي وجہ ہے کہ يہ علاقہ موسم گرما ميں امير لوگوں کي رہائش کا مرکز بنا ہوتا ہے اور يہاں کے زيادہ تر مکانات شہروں سے آۓ ہوۓ لوگوں نے اپنے ليۓ کرايہ کر رکھے ہوتے ہيں - برباد گھروں کي باقيات کو اس علاقے ميں ديکھا جا سکتا ہے- يہ خطہ پندرہ کلوميٹرکے مشکل راستے سے سر سبز واديوں تک قابل رسائي ہے-قلعہ قزلار موٹے پتھر کي ديواروں کے ساتھ گاۆں کي بلندي پر بنايا گيا ہے جو کہ ايک مضبوط ناقابل شکست محل ہے کہ جس تک رسائي بہت مشکل ہے- پہاڑي قلعہ اور پراني مسجد گاۆں کے ديگر تاريخي مقامات ميں سے ہيں- زارويم اور شروان گاۆں کے علاقے ميں منعقدہ تقريبات ميں آلہ موسيقي ٹار کے کھلاڑي'' بخشي'' موسيقي کي عمدہ کارکردگي کا مظاہرہ کرتے ہيں- بخشي'' کشتي تہواروں ميں پيش کيا جانے والا گاۆں کا ايک مقامي کھيل ہے- زاوريم گاۆں، شروان شہر سے ايک عمدہ سڑک کے ذريعے آپس ميں ملا ہوا ہے-

خراسان جنوبی

صوبہ خراسان جنوبی ایران کا ایک صوبہ ہے۔

 

بربادی و خوشحالی، خراسان کے ادوار:

ایران میں بعد از اسلام چھ صدیوں میں خراسان کے حالات کو سمجھنے کے لیے محض وہاں کے عجائب گھروں میں جائیں تو ملاحظہ کریں کہ وہاں زیادہ تر صنعتی اور ہنری شاہکاروں کے نمونے کس دور اور کس علاقہ سے متعلق ہیں اور اگر ایران کے تمام دانشوروں کے ناموں کی ایک فہرست تیار کی جائے تو معلوم ہو گا کہ زیادہ تر دانشوروں نے کون سی سرزمین میں پرورش پائی ہے۔ اگر فلسفہ، کلام، تصوف اور علمی و ادبی کتب کی فہرست تیار کی جائے تو یہ بات باعث حیرت ہو گی کہ ان کی ایک بڑی تعداد ان چھ صدیوں میں خراسان میں ہی تخلیق و تألیف کے مرحلہ سے گزریں۔مقامِ افسوس ہے کہ ۶۱۷ھ میں منگولوں کی یورش کے دوران ان میں سے بہت بڑی تعداد تباہ و برباد ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں کم و بیش ایرانی ثقافت کی کمر ٹوٹ گئی۔ البتہ منگولوں کے حملوں سے قبل ترکوں اور غزنویوں نے بھی وسطی ایشیا سے ۵۴۸ ھ میں خراسان پر چڑھائی کر دی اور مختلف شہروں کو نیست و نابود کر دیا۔ لیکن منگولوں کے مقابلہ میں ان حملوں کی شدت کم تھی۔ شاید ترکوں کے حملے منگولوں کے حملوں کے لیے راہ ہموار کر رہے تھے۔ چنگیز خان کی سرکردگی میں خراسان کے تمام شہر تباہ و برباد ہو گئے۔ وہاں کے لوگوں کو یا تو قتل کر دیا گیا یا قیدی بنا لیا گیا۔ مدارس اور کتب خانوں کو نذرِ آتش کر دیا گیا اور سینکڑوں ادباء و صوفیاء کو قتل کر دیا گیا۔ اس طرح خراسان مکمل طور پر ویران ہو گیا۔ابھی چنگیز خان کے حملوں کے زخم نہیں بھرے تھے کہ اس کے پوتے نے خراسان پر حملہ کر دیا، اس کی نظریں تمام ایران پر تھیں۔ اس نے ایران میں اسماعیلیوں اور بغداد میں عباسیوں کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ اب منگول یعنی ایلخانی حکومت قائم ہوئی۔ اس حکومت کے ظلم و ستم کی انتہا کے نتیجے میں آخری ایامِ حکومت میں ستروار اور اس کے ارد گرد کے علاقوں میں عوام بغاوت پر آمادہ ہوئے اور خراسان کے پہلے شیعہ خاندان نے سربداران کے نام سے حکومت قائم کی۔ سربداران نے خراسان کے اہم علاقوں پر تسلط حاصل کر لیا اور ستروار کو اپنا مرکز بنایا۔

انھوں نے ۷۳۶۔۷۸۸ ھ تک حکومت کی اور بعد ازاں تیمور لنگ کے ہاتھوں شکست کھائی۔ ۷۸۱ھ ق میں خراسانی ابھی منگولوں کی تباہیوں کے اثرات نہ مٹا پائے تھے کہ تیمور لنگ کے ظالمانہ حملوں کا شکار ہو گئے۔بااین ہمہ تیمور کی حکومت میں سمرقند جو قدیم خراسان کا حصّہ تھا، دا ر الحکومت قرار پایااور تیزی سے ترقی کی منزلیں طے کیں۔ تیمور کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اور دوسرے جانشین ’’شاہرخ مرزا‘‘ نے ہرات کو اپنا دار الحکومت بنایا اور خراسان میں امن و امان اور خوشحالی کی فضا پیدا ہوئی۔ لیکن یہ صورتحال بھی دسویں صدی ہجری کی پہلی دہائی میں ازبک کی یورش سے بدل گئی۔ تیموری حکومت کا شیبک خان ازبک کے ہاتھوں خاتمہ ہوا اور اس دہائی میں خراسان کے تمام شہر ازبک کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوئے اور اہلِ خراسان کو ایک بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔۹۰۷ ھ ق میں صفوی حکومت کے قیام سے ایک بار پھر خراسان میں امن و امان قائم ہوا اور شاہ طہماسب اور شاہ عباس نے ازبکوں کو مشرقی ایران سے باہر کیااور خراسان کے شہروں اور خاص طور پر مشہد کی آبادی کی کوششیں کیں اور صفوی دورِ حکومت کے آخر تک خراسان ایران کا ایک اہم مرکز تھا۔ اس خاندان کے سقوط کے بعد کچھ عرصہ تک افغانیوں کی کشمکش کا شکار رہا لیکن پھر اس بے سکونی کے دور کا خاتمہ بھی ، خراسان کے نادر شاہ افشار کی ہمت سے ہوا، اور نادر شاہ کی موجودگی سے خراسان ایران کی سیاسی تبدیلیوں کا مرکز بنا رہا، اور ۱۱۶۰ ھ ق میں نادر شاہ کی وفات اور اس کے جانشینوں کے درمیان اختلافات کی وجہ سے ایک بار پھر ایران اور خراسان ہرج و مرج کا شکار ہوئے۔ آخرکار نادر شاہ کے پوتے شاہرخ میرزا نے اس ریاست کی باگ دوڑ سنبھالی۔ اس نے کریم خان زند کے برسراقتدار آنے کے بعد بھی اپنی حکومت قائم رکھی لیکن بالآخر قاجاری حکومت کے بانی آغا محمد خان قاجار کے ہاتھوں اقتدار سے محروم ہوا۔

 

قاجاری دور میں خراسان کا مختلف حصوں میں تقسیم ہونا:

قاجاری عہد ایران و خراسان کے لیے انتہائی تلخ ثابت ہوا۔ اس دور میں خراسان کا ایک بڑا حصّہ اس سے جدا ہو گیا۔ ہندوستان میں برطانوی استعماری راج کی وجہ سے روس اور ہندوستان کے درمیان افغانستان کی حدِّ فاصل ہونے کی وجہ سے ان کی توجہ کا مرکز رہا، انگریزوں نے افغانستان کے بعض امرأجن کا تعلق ایران سے تھا، کو اس کے خلاف بھڑکایا اور جب محمد شاہ قاجار نے ہرات کا محاصرہ کیا تو اس نے جزیرہ خارک پر قبضہ کر لیا تا کہ شاہ ایران کو اس شہر اور افغانوں کی سرکوبی کے ارادے سے باز رکھیں۔ محمد شاہ کے بعد اس کے بیٹے ناصرالدین شاہ نے بھی کوشش کی کہ ہرات کو اپنی حکومت کا مطیع بنا لے لیکن اس بار بھی انگریزوں نے خارک اور بوشہر پر چڑھائی کر دی جو اس کے ارادے میں رکاوٹ بنی۔ بالآخر ۱۲۷۳ ھ ق میں ایران اور برطانیہ کے درمیان پیرس میں ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت ہرات ایران سے جدا ہو گیا اور قاجاری حکومت نے افغانستان کی مستقل حکومت کو قبول کر لیا۔اسی دور میں برطانیہ کی مانند روس بھی خراسان پر نگاہیں جمائے ہوئے تھا تا کہ اس سرزمین کے شمالی حصّہ کو اپنی حکومت کا حصّہ بنا لے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لیے روس نے کوئی حملہ نہیں کیا البتہ ایک منصوبہ بندی کے تحت سرخس سے بھی آگے تک پیش قدمی کو ممکن بنایا۔ مرو اور اس کے مضافات پر قبضہ کیا اور قاجاری حکومت کو اس حکمت عملی کے سامنے مجبور ہو کر سر کو جھکانا پڑا۔ لہٰذا عہدِ اسلامی میں خراسان کے چار حصّوں میں سے تین یعنی ہرات اور بلخ کو افغانستان میں اور مرو کو ترکمانستان میں شامل کیا گیا اور یوں یہ علاقے سرزمینِ ایران سے الگ ہو گئے اور قدیم تہذیب و تمدن کا درخشاں ستارہ محدود ہو کر رہ گیا۔ البتہ خراسانی ثقافت اور تہذیب و تمدن کے اثرات افغانستان اور وسطی ایشیا کے عوام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہوشنگ ابتہاج (ھ۔ا۔ سایہ)کے مطابق :

 

باغہا را گرچہ دیوار و در است

از ہوا شان راہ با یکدیگر است

شاخہ ہا را از جدائی گر غم است

ریشہ ہا را دست در دست ہم است

 

اگر باغ کے گرد در و دیوار بنا دی جائے لیکن ان کی ہوائیں ایک دوسرے کو پہنچتی ہیں، اگرچہ اس باغ کی شاخیں جدائی کے غم میں گریہ کناں ہیں لیکن ان کی جڑیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔

۱۳۸۰ ھ ش میں طبس اور اس کے مضافات خراسان سے جدا ہو گئے اور ملکی تقسیم میں صوبۂ یزد کا حصّہ بن گئے۔ اسی طرح ۱۳۸۲ ھ ش میں خراسان تین حصّوں میں تقسیم ہو گیا، شمالی خراسان، بجنورد کے مرکز کا خراسان رضوی جس کا مرکز مشہد اور جنوبی خراسان جس کا مرکز بیر چند قرار پایا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج عظیم خراسان سے ایران و توران کی سرحدوں کے نشان بھی باقی نہ رہے۔

گلستان

گلستان

"گرگان " ایران کے صوبہ گلستان " کا مرکز ہے اور یہ ایک انتہائی خوبصورت شہر ہے ۔ اس شہر کی آب و ہوا نہایت صحت افزا ہے اور یہاں کے حسین قدرتی مناظر دیکھ کر انسان ایک بار تروتازہ ہو جاتا ہے ۔ اس شہر کا رقبہ تقریبا 1616 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی 378010 افراد پر مشتمل ہے ۔ یہ شہر سیاحتی مرکز ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کے چاہنے والوں کی توجہ کا بھی مرکز اور آنکھ کا تارا رہتا ہے کیونکہ یہاں پر بہت سے تاریخی آثار موجود ہیں جن کو دیکھنے کے لیۓ دور دور سے سیاح یہاں کا رخ کرتے رہتے ہیں ۔ اس شہر کے لوگ بہت ہی ملنسار اور مہمان نواز ہیں اور مختلف اقوام پر مشتمل ہیں ۔ یہاں پر ملنے والے قدیم تاریخ آثاروں مثلا تورنگ تپہ اور شاہ تپہ وغیرہ وغیرہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہاں پر انسان بہت پہلے سے آ کر آباد ہو گیا تھا ۔ ان قدیم تاریخی آثاروں سے یہاں کی قدیم ثقافت کا بھی پتہ چلتا ہے ۔اس شہر کا پرانا نام " ھیرکانیا " تھا جو اشکانی دور حکومت میں ھیرکانی صوبے کا مرکز رہا تھا ۔ ایران کے مشہور بادشاہ آقا محمد خان قاجار اس شہر میں پیدا ہوۓ اور گرگان شہر قاجاری دور حکومت کا دارلخلافہ بھی رہا ۔ اس وقت یہ " دارلمومنین " کے نام سے مشہور تھا ۔ اس شہر میں نادر شاہ اور قاجاری دور حکومت میں بہت سی عمارتیں بنائی گئیں جن میں بعض عمارتوں کے آثار آج بھی موجود ہیں ۔اس شہر میں سیاحت کے لیۓ بہت سے پرکشش مقامات پاۓ جاتے ہیں جو پہاڑوں ،دروں ، ندیوں ،آبشاروں ،چشموں اور سرسبز جنگلات پر مشتمل ہیں ۔یہاں کے مشہور تفریحی مقامات مندرجہ ذیل ہیں ۔ پارک ھای جنگلی، پارک شہر، سد نومل، آب گرم ، آبشار دو قلو زیارت، ھزار پیچ، بازار نعلبندان، چھار شنبہ بازار، دھکدہ تورستی زیارت شاھکوہ، کاخ آقا محمد خان ، کاخ موزہ سلطنتی، موزہ گرگان، جامع مسجد، مدرسہ عمادیہ، بافت قدیم شہر، خانہ تقوی، کاروانسرای سنگی، قزلق، دیملو، حمام قدیمی، تورنگ تپہ، شاہ تپہ، خرگوش تپہ، قلعہ خندان ، ترگس تپہ، امامزادہ ھا وغیرہ وغیرہ ۔

سمنان

خارتوران قومی پارک۔ خار توران یا توران منطقہء محفوظ

صحرا ہمیشہ مردہ اور خشک نہیں رہتے۔ قدرت وہاں اپنی رحمت کی بارش برسا کر مٹی اور ریت کے خشک ذرات کو حیات نو بخشتی ہے جس سے وہاں مختلف انواع کے پودے اور درخت وغیرہ نشونما پاتے ہیں اور مختلف جنگلی ریگستانی حیات کی خوراک بنتے ہیں۔ خار توران جو ایران کا قومی پارک ہے۔ جنگلی و ریگستانیجانداروں کی بہت بڑی پناہ گاہ ہے جس کارقبہ دس ہزار ہیکٹر سے زائد ہے۔ خارتوران ایران کے صوبے سمنان (سمن) کے شمال مشرق میں شاہرود شہر کے قریب واقع ہے۔ خار توران کو ایشیائی یا ایرانی چیتوں کامسکن سمجھا جاتا ہے۔ اس علاقے میں 12 سے 15 مخصوص نسل کی کرشمائی بلیںبھی پائی جاتی ہیں اندازوں اور جائزوں کے مطابق یہ بلیاں مسلسل اپنی نسل میں اضافہ کررہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس علاقے میں ایرانی گورخروں کی بھی کثیر تعداد پائی جاتی ہے۔ ایرانی ہرن ، ،جنگلی بکرے، جنگلی بھیڑیں اور چنکارا ہرن بھی کافی تعداد میں یہاں پناہ گزین ہیں۔

گلستان قومی پارک۔

گلستان قومی پارک ایران کا ایک قومی پارک ہے جو ایران کے صوبہ گلستان میں واقع ہے۔ یہ جنگل ایران کے تین صوبوں کی سرحدوں(شمالی خراسان، گلستان اور مازندران) میں واقع ہے۔ اسکا رقبہ 91890 ہیکٹر ہے۔ سطح سمندر سے اسکی بلندی ایک ہزار میٹر سے چودہ سو میٹر تک جاپہنچتی ہے۔ اس جنگل میں جنگلی حیات کی کافی اقسام کثیر تعداد میں پائی جاتی ہیں جن میں ممالیہ، غیر ممالیہ، گوشت خور اور چبانے والے سبھی جنگلی جاندارشامل ہیں۔ اس جنگل میں 8 دریابہتے ہیں۔

یزد

يزد

صوبہ يزد ايران کا صحرايي علاقہ ہے اور ايراني زرتشتيوں کا سب سے بڑا گروہ اسي صوبے خاص طور پر يزد کے شہر ميں رہتے ہيں- صوبہ يزد ايک تاريخي علاقہ ہے جو پارس، اصفہان، کرمان اور خراسان جيسے پرانے شہروں کے درميان واقع ہے- ايران کا پانچ ہزار سالہ درخت اسي صوبے، ابرکوہ کے شہر ميں واقع ہے جو دنيا کے قديمترين درختوں ميں سے ہے- اس کي لمبائي 25متر ہے- يہ درخت وہاں کے لوگوں کے بيچ بابا چنار کے نام سے مشہور ہے- نارين قلعہ بھي جو دنيا کا سب سے پرانا خشتي عمارت ہے اسي صوبے کا ہے- ايران کي سب سے پراني مسجد بھي اسي صوبے ميں يزد کے 30 کيلومتري پر واقع ہے-درہ گان کا جھڑنا صوبہ يزد کي خوبصورت قدرتي مناظر ميں سے ہے جو شہر تفت ميں واقع ہے- زرتشتيوں کا بہت مشہوراور اصلي آتشکدہ، چک چک ، بھي اسي صوبہ کے شہر اردکان(اردکان اور انجيرہ کے پہاڑوں کے درميان) ميں ہے- ہر سال زرتشي لوگ 24 خرداد کو يہاں آکے دو ہفتہ کے ليے ايک دوسرے کے ساتھ اللہ کي عبادت کرتے ہيں-غربالبيز کا چشمہ بھي ايک پرانا چشمہ ہے جو اردکان کا جامع مسجد، ابر کوہ کا گنبد عالي، طبس کا باغ گلشن، مہريز کا خورميز قلعہ، مہريز ميں زين العابدين کا کاروانسرا، غرباليز کا چشمہ، رجال اردکان کا عجايب گھر، تفت ميں دہ بالا کا جھرناو غيرہ اس صوبے کے ديگر اہم تاريخي اور قدرتي قابل ديد جگہ ہيں-يزد ونيز کے بعد دنيا کا دوسرا پرانا شہر ہےجس کے بے شمار آثار قديمہ اور تاريخي عمارتيں ديسي اور پرديسي سياحوں کو اپني طرف کھينچتاہے- اس شہر کے اکثر ملےگئے آثارقديمہ پانچويں صدي ہجري سے متعلق ہيں اور بعض دوسري اور تيسري صدي ہجري سے مگر بہت سے مورخيں کا خيال ہے کہ يزد کا پرانا پن اسلام سے پہلے تک پہنچ جاتاہے- دولت آباد کا باغ اس شہر کے حسين باغوں ميں سے ہے جو محمد تقي خان (زنديہ) کے دور ميں بنايا گيا ہے- لاريوں کا گھر بھي اس شہر کے توريستي مقامات ميں سے ہے اور 1963 قمري ميں بنايا گيا تھا- حاج محمد ابراہيم لاري اس عمارت کا مالک تھا- ضيانيہ کا مدرسہ بھي جو 631 ہجري قمري سے متعلق ہے شرف الدين رضي علي کے کہنے پر بنايا گيا ہے- يہ مدرسہ نھادان کے محلے پر بارہ اماموں کے بقعے کے قريب واقع ہوا ہے- زرتشتيوں کا آتشکدہ، امير چخماق کي مسجد اور ميدان، جامع مسجد، ربگ مسجد، لاريوں کا گھر، محمودي

کا گھر، حمام خان ، خان کا بازار، گھڑي کا مينار، دولت آباد کا باغ، پاني کا عجايب گھر، پلاس کا عجايب گھر، اسکندريہ کا جيل اس شہر کے پرانے تہذيب کے نشان ہيں-

مسجد امیر چخماق (نئی جامع مسجد) یزد

مسجد امیر چخماق ، یزد کی تاریخ میں نئی جامع مسجد کے نام سے بھی یاد کی جاتی ہے یہ مسجد صفوی دور میں یزد کے حاکم امیر جلال الدین چخماق شامی اور اس کی بیوی بی بی فاطمہ خاتون کی ہمت و کوشش سے بنائی گئی ہے ۔امیر جلال الدین کا شمارشاہرخ کے قریبی سرداروں اور امراء میں ہوتا تھا۔ اس مسجد کی تعمیرکا کام سنہ 841 ہجری قمری میں پایہ تکمیل کو پہنچا ۔ حسن و زیبائی اور وسعت کے اعتبار سے شہر کی جامع مسجد کے بعد اس کا دوسرامقام ہے ۔ اس مسجد کی تعریف و توصیف میں بس اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ اس کا ورودی دروازہ میر چخماق میدان کی طرف کھلتا ہے جہاں ایک پتھر نصب ہے جس پر خط نسخ میں وقف نامہ لکھا ہوا ہے ورودی دروازہ سے جب صحن میں داخل ہوتے ہیں توشمالی راہرو کی جالیاں بہترین و خوبصورت ٹائل سے مزین ہیں۔ ایوان کے بالائی حصہ پر بھی معرق کاشیکاری کی گئی ہے ۔ محراب کے اطراف میں بھی خوبصورت ٹائل اور اس کے وسط میں بہترین تراشا ہوا سنگ مرمر نصب کیا گیا ہے۔ مسجد کا گنبد بھی سبز رنگ کی خوبصورت ٹائلوں سے مزین ہے جس پر کوفی خط میں عبارت کندہ ہے ۔

کرمان

کرمان

مملکت ایران کے جنوب مشرق میں واقع صوبہ کرمان (فارسی: استان کرمان) (انگریزی: Kerman Province) رقبہ کے لحاظ سے ایران کا دوسرا بڑا صوبہ ہے۔ صوبہ کا رقبہ 180,836 مربع کلومیٹر اور آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ صوبائی صدر مقام کرمان کے علاوہ دیگر شہر بافت، بردسیر، بم، جیرفت، راور، رفسنجان، رودبار جنوب، زرند، سیرجان، شہر بابک، عنبرآباد، قلعه گنج، کرمان، کوهبنان، کهنوج اور منوجان ہیں۔

سیستان بلوچستان

صوبہ سیستان و بلوچستان

 

صوبہ سیستان و بلوچستان (فارسی: استان سيستان و بلوچستان) ایران کے 31 صوبوں میں سے ایک ہے. یہ ملک کے جنوب میں پاکستاناور افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے اور اس کا دارالحکومت زاہدان ہے. یہ صوبہ ایران میں 181،785 مربع کلومیٹر کے علاقے کے ساتھ سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جبکہ اس کی آبادی تقریبا 24 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریت بلوچوں کی ہے جبکہ پشتون اور کرد باشندے اقلیت میں ہیں۔ یہ صوبہ ایران کا پسماندہ ترین صوبہ ہے یہیں کے لوگ بہت غریب ہیں۔ حکومت ایران نے اس طرف توجہ دی ہے اور اب اسے صنعتی علاقہ بنایا جا رہا ہے جس سے یہاں پر کئی لوگوں کو روزگار ملے گا اب یہ علاقہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔

 

جغرافیہ

صوبہ دو حصوںمیں منقسم ہے شمالی حصہ سیستان اور جنوبی حصہ بلوچستان ہے۔ مشترکہ سیستان و بلوچستان ایران کے خشک ترین علاقے ہیں یہاں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ یہ علاقہ مختلف ہواؤں کے زیر اثر رہتا ہے۔یہ ایران کا ساحلی صوبہ ہے اس کے جنوب میں خلیج عمان ہے۔

 

زبان

زیادہ تر لوگوں کی مادری زبان بلوچی ہے شمال میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ مقیم لوگ پشتون ہیں اور پشتو بولتے ہیں جبکہ فارسیمشترکہ قومی زبان کے طور پر بولی اور سمھجی جاتی ہے۔

صوبہ سیستان و بلوچستان

 

صوبہ سیستان و بلوچستان (فارسی: استان سيستان و بلوچستان) ایران کے 31 صوبوں میں سے ایک ہے. یہ ملک کے جنوب میں پاکستاناور افغانستان کی سرحد سے ملحق ہے اور اس کا دارالحکومت زاہدان ہے. یہ صوبہ ایران میں 181،785 مربع کلومیٹر کے علاقے کے ساتھ سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جبکہ اس کی آبادی تقریبا 24 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ اکثریت بلوچوں کی ہے جبکہ پشتون اور کرد باشندے اقلیت میں ہیں۔ یہ صوبہ ایران کا پسماندہ ترین صوبہ ہے یہیں کے لوگ بہت غریب ہیں۔ حکومت ایران نے اس طرف توجہ دی ہے اور اب اسے صنعتی علاقہ بنایا جا رہا ہے جس سے یہاں پر کئی لوگوں کو روزگار ملے گا اب یہ علاقہ ترقی کی طرف گامزن ہے۔

 

جغرافیہ

صوبہ دو حصوںمیں منقسم ہے شمالی حصہ سیستان اور جنوبی حصہ بلوچستان ہے۔ مشترکہ سیستان و بلوچستان ایران کے خشک ترین علاقے ہیں یہاں بارش بہت کم ہوتی ہے۔ یہ علاقہ مختلف ہواؤں کے زیر اثر رہتا ہے۔یہ ایران کا ساحلی صوبہ ہے اس کے جنوب میں خلیج عمان ہے۔

 

زبان

زیادہ تر لوگوں کی مادری زبان بلوچی ہے شمال میں افغانستان کی سرحد کے ساتھ مقیم لوگ پشتون ہیں اور پشتو بولتے ہیں جبکہ فارسیمشترکہ قومی زبان کے طور پر بولی اور سمھجی جاتی ہے۔

ھرمزگان

هرمزگان

هرمزگان ایران کا ایک ساحلی صوبہ ہے اس کا صدر مقام بندر عباس ہے۔

فارس

صوبہ فارس

 

صوبہ فارس ايران کے جنوبي حصے ميں واقع ہے- يہ صوبہ تاريخي، مذہبي اور فطرتي قابل ديد جگہوں کي بدولت ايران کے اہم سياحتي صوبوں ميں شمار ہوتا ہے-اسلام کي آمد سے ہزار سال پہلے اس صوبے ميں عيلامي قوم رہتي تھي- ان سے ہميں بہت سارے آثار قديمہ اور تاريخي محل ورثے ميں ملے ہيں - تخت جمشيد جو ہخامنشي سلطنت کا پہلا دارالحکومت تھا اسي صوبے ميں واقع ہے- ملل کا دروازہ، آپادانا کا محل، صد ستون کا محل اور تچر کا محل اس صوبے کے اہم تاريخي مقامات ميں شمار ہوتے ہيں- 321عيسوي سے پہلےاسکندر مقدوني نے اس شہر کو جلايا اور اس کے سارے خزانے کو لوٹ ليا - استخر اس صوبے کا ايک قديم شہر ہے جو تخت جمشيد کے برباد ہونے کے بعد بنايا گيا اور رفتہ رفتہ اس کي شان اور عظمت بڑھنے لگي -ارجان ايک اور قديم شہر ہے جو ساساني بادشاہ قباد اوّل کے حکم پر بہبہان کے قريب بنايا گيا مگر اب کھندڑ کے سوا اس شہر ميں کچھ باقي نہيں- اس صوبے ميں قباد اوّل کا شاپور کے نام سے ايک محل تھا جو اس کے کھنڈر کازرون سے 20 کلوميٹر کے فاصلے پر موجود ہے - پاسارگاد جو ہخامنشي سلطنت کا سب سے پہلا دارالحکومت ہے شيراز ، اصفہان روڈ سے 70 کيلومتري ، دشت مرغاب ميں واقع ہے-يہ شہر کورش کبير کے حکم پر بنايا گيا - کورش کا مقبرہ اور محل اور سليمان کي جيل اس شہر کي تاريخي عمارتوں ميں سے ہيں- شيراز جو صوبہ فارس کا مرکز ہے صوبے کا سب سے گنجان آباد شہر ہے-مسلمان جغرافيہ دانوں کے خيال کے برعکس شيراز اسلام سے صديوں پہلے بنايا گيا -مرودشت جانے کے ليے شيراز سے نکلنے کے راستے ميں دروازہ قرآن واقع ہے جو عضدالدولہ کے حکم پر بنايا گيا اور مسافروں کے گزرنے کے ليے اس کے اوپر ايک قرآن لگايا گيا -بعد ميں کريم خان زند نے اس دروازےکو دوبارہ مرمت کرکے اس پر ايک کمرہ بنوا کر قرآن کے دو قلمي نسخے رکھے جو اب پارس کے عجائب گھر ميں محفوظ ہيں-ارگ(قلعہ)کريم خان بھي شہر کے مرکز ميں واقع ہے- جب کريم خان نے 

بوشہر

صوبہ بوشہر

صوبہ بوشہر (فارسی: استان بوشہر‎، انگریزی: Bushehr Province) ایران کے اکتیس صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے۔

شہرستان بوشہر کی مجموعی آبادی 258،906 افراد پر مشتمل ہے۔

اصفہان

اصفہان

صوبہ اصفہان ايران کے مرکز ميں واقع ہے - يہ صوبہ صنايع دستي بنانے کا سب سے بڑا مرکز ہے-صفوي دور ميں اس صوبے کي بہت ترقي ملي - اس صوبے کا مرکزي شہر اصفہان ہے جو ايک قديم شہر ہے اور ايران کے مرکز اور زايندہ رود کے کنارے پر واقع ہے- ايران کي تہذيب ميں يہ شہر نصف جہان کے نام سے مشہور ہے- اصفہان، تہران اورمشہد کے بعد ايران کا سب سے گنجان آباد شہر ہے- اس شہر ميں بہت ساري تاريخي عمارتيں موجود ہيں جن ميں سے بعض کے نام تاريخي ورثے کے نام سے يونسکو ميں لکھے گئے ہيں- چہل ستون کا باغ شاہ عباس کے عہد ميں بنايا گيا ہے جس کے درميان چہل ستون کي عمارت موجود ہے-ہشت بہشت کي تاريخي عمارت صفوي بادشاہوں کا محل تھا جو 1080ھ ميں بنايا گيا ہے- اس تاريخي جگہ کے باغ اپني اصل حالت ميں باقي نہيں رہا ہے مگر اس کا محل اب بھي ديکھنے کے قابل ہے- اس دہائي ميں اس محل کے اردگرد ايک بڑا شاندار پارک بنايا گيا تھا جو اس محل کي خوبصورتي کو دگنا کرديا ہے-عالي قاپو کي پانچ منزلہ عمارت کو بارہويں صدي ہجري کي ابتدا ميں شاہ عباس اول کے حکم پر بنايا گيا تھا اور بادشاہ اس محل ميں سفيروں اور عالي مرتبہ مہمانوں سے ملتے تھے اور اسي محل کے تالار سے مہمانوں کے ساتھ چوگان، آتشبازي اور چراغاني جيسے کھيلوں کو ديکھتے تھے- اصفہان کے مينار جنبان کي شہرت اس کے دو ميناروں کے لرزنے کي وجہ سے ہے-ايک مينار کے لرزنے سے پوري عمارت

لرزنے لگتي ہے- ہر مينار کي لمبائي 17 ميٹر ہوتي ہے-اس عمارت کا ايوان مغل معماري کي طرز پر بنائيا گيا ہے- ايسا کہا جاتا ہے کہ دو ميناروں کو اس ميں اضافہ کيا گيا ہے-ايوان ميں چچا عبداللہ کے نام پر ايک قبر ہے جو مغل عہد کے ہمعصر تھے-اللہ وردي خان کا پل ايران کے پل بنانے کي معماري ميں بڑا شہکار ہے- يہ پل سي و سہ (33) پل کے نام سے مشہور ہے اور 1005ہجري کو شاہ عباس اول کے عہد ميں اللہ وردي خان کے پيسے اور زيرنگراني ميں زايندہ رود پر بنايا گيا ہے- اس پل کا طول 3000 ميٹر ہے اور اس لحاظ سے زايندہ رود کا سب سے لمبا پل ہے- خوبصورتي اور عظمت کے لحاظ سے يہ پل بہت منفرد ہے-پل خواجو بھي تيموري دور ميں بنايا گيا اور شاہ عباس دوم کے دور ميں اس کي مرمت ہوئي اور آج کے روپ ميں ڈھل گيا- شاہ کے عارضي قيام کے ليے اس پل کے بيچ ميں ايک عمارت بنائي گئي جو بيگلر بيگي کے نام سے مشہور ہے- اس پل کا اصل نام شاہي پل ہے اور خواجو محلے کي مجاورت کي وجہ سے يہ دو صدي ميں پل خواجو کے نام سے مشہور ہو گيا ہے- صوبہ اصفہان کے ديگر تاريخي سياحتي جگہوں کا نام حسب ذيل ہيں:آران اور بيدل نمک کا جھيل، سيلک کي پہاڑي، مارنان کا پل، ابيانہ گاۆں، گوگد کا گڑھ، شيخ بہائي کا گڑھ، توحيد خانہ کي عمارت، وانک کا گرجا، زايندہ رود کا ڈيم، چار باغ کا مدرسہ، شيخ لطف اللہ کي مسجد، تخت فولاد اصفہان کا قبرستان، باقوشخانہ مينار، برسيان مينار، مرنجاب کا کاروانسرا، نياسر کا جھرنا وغيرہ -

خوزستان لنک

صوبہ خوزستان

صوبہ خوزستان میدیا کے جنوب اور زیریں میسوپوٹیمیا کے مشرق میں ایک زرخیز علاقہ۔ کسی زمانے میں اس کے بڑے شہر تشتہ اوراہواز تھے۔ خوزستان اب ایران کا ایک صوبہ ہے اور تیل کا بڑا مرکز۔ یہاں کھجور اور کپاس کی کاشت ہوتی ہے۔

صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد

صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد

صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد ایران کا ایک صوبہ ہے۔ صوبہ کہگیلویہ و بویراحمد (فارسی: استان کہگیلویہ و بویراحمد) ایران کے 31 صوبوں میں سے ایک ہے. یہ ملک کے جنوب مغرب میں ہے، اور اس کی دارالحکومت یاسوج ہے. صوبے کا رقبہ 15،563 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہے، اور 2006 میں آبادی 634،000 تھی۔

(کہگیلویہ کا لفظ چار کلمات پر مشتمل ہے۔ «کوه» (پہاڑ کو کہتے ہیں) ، «گیل» (ایک پہاڑ کا نام ہے)، «او»(وہ، یہ اسم اشارہ ہے) و «یہ» (علامت نسبت ہے گذشتہ اسم اشارہ کے ساتھ “اس کا“ کے معنی میں ہے). اس کا مکمل معنی«گیل پہاڑ کا پہاڑی علاقہ» ہے.)

چہارمحل

صوبہ چهارمحال و بختیاری

صوبہ چهارمحال و بختیاری (فارسی: استان چهارمحال و بختیاری) (انگریزی: Chaharmahal and Bakhtiari Province) ایران کے تیس صوبوں میں سے ایک ہے، جسکا رقبہ 16,332 مربع کلومیٹر اور 2005ء کے تخمینہ کے مطابق آبادی 842,000 ہے۔ صوبہ ایران کے جنوب مغربی علاقہ میں واقع ہے اور صوبائی صدر مقام شهرکرد ہے۔تاریخی طور پر بختیاری اور چھار محالی قبائل سے آباد ہے، اور انہی قبیلوں کے ناموں کو ملا کر صوبہ کا نام رکھا گیا ہے۔ یہ دونوں قبائل صدیوں سے اس علاقہ میں مل کر رہ رہے ہیں اور ان دونوں قبائل کے رسوم و رواج اور ثقافت بھی ملتی جلتی ہے۔ اس صوبہ کے لوگ سادہ طرز زندگی اور بلند ارادوں کی وجہ سے پورے ایران میں سخت جنگجو لوگوں کے طور پر جانے جاتے ہیں، اور ایران کے بہترین گھڑسوار قرار دیے جاتے ہیں۔ علاقہ قبائلی طرز کے رہن سہن، پہلوانی، موسیقی، رقص اور لباس کی وجہ سے دوسرے ایرانی علاقوں سے مختلف نظر آتا ہے۔زریعہ معاش زیادہ تر زراعت ہے، جبکہ صنعتیں صوبائی صدرمقام میں مرتکز ہیں۔ علاقہ اپنی قدرتی خوبصورتی کی بدولت اہم سیاحتی مقام بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔

لرستان

صوبہ لرستان

مرکزی

صوبہ مرکزی

صوبہ مرکزی (فارسی: استان مرکزی) ایران کا صوبہ ہے۔ صوبہ کے اہم شہروں میں اراک، محلات، خمین، تفرش شامل ہیں۔

قُم

صوبہ قُم

شہر قم کا تاریخی سابقہ بعض حضرات قم کو قدیم شہروں میں شمار کرتے ہیں اور اسے آثار قدیمہ میں سے ایک قدیم اثر سمجھتے ہیں نیز شواہد و قرائن کے ذریعہ استدلال بھی کرتے ہیں مثلا قمی زعفران کا تذکرہ بعض ان کتابوں میں ملتا ہے کہ جو عہد ساسانی سے مربوط ہیں ۔ نیز شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر بھی ہے ۔ اس کے علاوہ یہ کہ قم اور ساوہ بادشاہ ” تہمورث پیشدادی “ کے ہاتھوں بنا ہے ۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ یہ تمام دلیلیں مدعا کو ثابت نہیں کرتی ہیں کیونکہ عہد ساسانی میں قم کی جغرافیائی و طبیعی حالت ایسی نہ تھی کہ وہاں شہر بنایا جاتا بلکہ ایسا شہر تہمورث کے ہاتھوں بنایا جانا ایک قدیم افسانہ ہے جس کی کوئی تاریخی اہمیت نہیں ہے علاوہ ازیں شاہنامہ فردوسی میں ۲۳ ء ھ کے حوادث میں قم کا ذکر اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ اس دور میں بھی یہ زمین اسی نام سے موسوم تھی کیونکہ فردوسی نے اپنے اشعار میں محل فتوحات کے نام اس زمانے کے شہرت یافتہ و معروف ناموں سے یاد کیا ہے نہ کہ وہ نام کہ جو زمان فتوحات میں موجود تھے ۔ اسناد تاریخ اور فتوحات ایران کہ جو خلیفہ مسلمین کے ہاتھوں ہوئی اس میں سرزمین قم کو بنام ” شق ثمیرۃ “ یاد کیا گیا ہے ۔ اس بنا پر شہر قم بھی شہر نجف ، کربلا ، مشہد مقدس کی طرح ان شہروں میں شمار ہوتا ہے کہ جو اسلام میں ظاہر ہوئے ہیں ایسی صورت میں اس کے اسباب وجود کو مذہبی و سیاسی رخ سے دیکھنا ہوگا ۔ (۱) قم کی طرف خاندان اشعری کی ہجرتقم اسلامی شہروں میں سے ایک شہر ہے ۔ جس نے خاندان اشعری 

(۲) کے اس سرزمین پر ۸۳ ھ (۳) میں وارد ہونے اور ان کے سکونت پذیر ہونے کے بعد وجود پیدا کیا ہے اور اس کا نام قم رکھا گیا ۔یہاں پر لازم ہے کہ خاندان اشعری کی ہجرت کے اسباب و علل پر توضیح دی جائے :خاندان اشعری حاکم کوفہ حجاج کے ظلم و ستم اور اپنے خاندان کی برجستہ شخصیت کے قتل کے بعد امن و سلامتی کا فقدان محسوس کرنے لگے تو جلا وطنی اختیار کر کے ایران کی طرف روانہ ہو گئے چلتے چلتے نہاوند پہنچے ، وہاں ایک وبا میں مبتلا ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ جاں بحق ہوگئے ۔

لہٰذا وہاں سے دوبارہ کوچ اختیار کرلیا اور اسی طرح آبلہ پائی کرتے ہوئے سرزمین قم پر وارد ہو گئے ان لوگوں کے قم آنے کی علت کیا تھی اس کے لئے ان کے جدبزرگ مالک کی فتوحات کوجنگ قادسیہ میں دیکھنا پڑے گامالک ، فراہان و تفرش اور آشتیان و ساوہ کو فتح کرنے کے بعد قوم دیلم کے ساتھ کہ جو لوگوں کے اموال کو ہڑپ لیتے اور وہاں کے رہنے والوں کی ناموس پر تجاوز کرتے تھے ۔ آمادہٴ پیکار ہو گئے اور انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکا اور نیست و نابود کردیا اور جو ناموس انکے دست ستم سے اسیر تھیں انھیں آزاد کردیا اس زمانے کے لوگ خود کو مالک کا آزاد کردہ سمجھتے تھے ان لوگوں نے اس واقعہ کو ہمیشہ یاد رکھا ۔ قبیلہ اشعری کہ جو اس دیار کے نام سے آشنا تھے مستقل سکونت کے لئے اس سرزمین کی طرف روانہ ہو گئے جب یہ لوگ منزل ” تقرود “ ( جو ساوہ کے قرب و جوار میں ہے ) پہنچے تو احوص نے اس سر سبز و شاداب سرزمین کو سکونت اختیار کرنے کے لئے مناسب سمجھا تو وہاں قیام کے لئے غور و فکر کرنے لگے ۔اعراب کی منزلگاہ کوہ یزدان ( در میان تقرود و قم ) کی وادی میں تھی اسی وجہ سے آہستہ آہستہ خاندان اشعری کے ورود کی خبر یزدان پائدار (یزدانفاذار) زرد تشتیوں کے سردار تک پہنچ گئی ، وہ ان لوگوں کی آمد سے بہت خوش ہوا اور اس امر کی تصمیم کی کہ دیلمیوں کے حملے سے اپنی سرزمین کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کو قم میں پناہ گزیں کرے گا نیز ظالم قوم ، دیلم کی سرکوبی نے کہ جو احوص اور ان کے ساتھیوں کے ذریعہ ہوئی تھی یزدانفاذار کو اس سلسلے میں اور مصمم تر کردیا ( وہی حملہ مجدد جو احوص کے ہاتھوں ان منطقوں ہر ہوا تھا ) فتح و ظفر کی خبرسن کر وہ بذات خود احوص کے استقبال کے لئے روانہ ہو گیا اور تشکر کے عنوان سے ان کے سروں پر زعفران اور درہم نچھاور کئے ۔ ان کی قوم کو اس زمانے کے مشہور و معروف قلعے میں جگہ دی ان لوگوں نے اپنی چادروں کے ذریعہ ان قلعوں کے درمیان فاصلہ قائم کیا ۔ عبد اللہ ( احوص کے بھائی ) کے لئے اقامہ نماز اور احکام اسلام کے بیان کی خاطر ایک مسجد کی بنیاد ڈالی ۔ زرتشتیوں نے مسلمانوں کے ساتھ اتنی صمیمیت و محبت پیدا کرلی کہ آپس میں بردباری و مواسات کے عہد نامے نیز پیمان دفاعی پر دستخط کردیا ۔ اس طرح مسلمان اعراب نے روز بروز اپنے محل سکونت کو وسعت دینا شروع کردیا اور بہت سارے گھر اور کھیتیاں خرید لیں اسی وجہ سے جدا جدا قلعے نئے نئے مکانات بننے کی وجہ سے آپس میں متصل ہونے لگے اس طرح ایک مکمل شہر وجود میں آ گیا اور سب سے پہلے مسجد اس شہر میں بنائی گئی ۔مذکورہ عہد و پیمان یزدانفاذار کی آنکھ بند ہونے تک بخوبی اجرا ہو رہے تھے ۔ اور مسلمانوں و زرد تشت دو قومیں آپس میں صلح و آشتی کی زندگی گزار رہی تھیں ۔ لیکن یزد انفاذار کی موت کے بعد اس کی اولاد مسلمانوں کی روز افزون حشمت و ثروت اور ان کے وسیع و مرتبہ و با جلالت مکانات دیکھ کر خود کو ذلیل و رسوا سمجھنے لگی اور اس سلسلے میں فکر کرنے لگی یہاں تک کے وہ لوگ پیمان شکنی پر آمادہ ہوگئے اور عبد اللہ و احوص ( بزرگان خاندان اشعری ) سے اصرار کرنے لگے کہ اپنی قوم کے ساتھ اس سرزمین سے باہر چلے جائیں عبد اللہ و احوص نے ان لوگوں کو بے حد پند و نصیحت کی اور انھیں وفائے عہد و پیمان کی دعوت دی ، عہد شکنی کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے انھیں ڈرایا لیکن قوم زرد تشت اسی طرح اپنی باتوں پر اڑی رہی اور نئے سال کی چودہ تاریخ تک کی مہلت دی تا کہ جو کچھ بھی ہے اسے فروخت کرکے یہاں سے چلے جائیں ۔اس فاصلہ زمانی میں احوص نے بزرگان قبیلے سے مشورت کے بعد ارادہ کیا کہ سال کے آخری چہارشنبہ میں اس دیار کو زرد تشتیوں اور چالیس قلعوں کے بزرگوں سے نجات دلائیں گے نیز پاک سرشت افراد کے اسلام سے گرویدہ ہونے کی راہنمائی کریں گے ۔ اسی عزم کی بنیاد پر چالیس لوگوں کو مامور کیا کہ اس شب میں کہ جب زرد تشت جشن و خوشحالی اور شراب نوشی میں مشغول ہوں تو یہ لوگ ان قلعوں میں پہنچ کر ان قلعوں کے خداؤں کو نیست و نابود کردیں ۔ یہ پالیسی بہت اچھی طرح کامیاب ہوئی اور زرد تشتیوں کے فتنہ پرور سردار اس شہر سے نکل بھاگے ۔ قلعہ کفر لجاجت منہدم ہوگیا وہاں کے لوگ آزادی محسوس کرتے ہوئے گروہ در گروہ مسلمان ہونے لگے اور آتشکدے یکی بعد دیگرے خاموش ہو کر مسجدوں میں تبدیل ہوگئے اس طرح سے مسلمانوں نے احوص و عبد اللہ اشعری کی رہبری میں سر بلندی حاصل کی (۴) اور شہر قم بعنوان شہر امامی مذہب معرض وجود میں منصئہ شہود پر ظہور پذیر ہوگیا ۔ اور امامی شیعوں کا فقہی مکتب عبد اللہ بن سعد اور ان کے فرزندوں کے ہاتھوں اس شہر میں قائم ہوا ۔ گزشت زمان کے ساتھ ساتھ قم پیرو فقہ اہلبیت کے شہر سے معروف ہوگیا اس طرح اس شہر نے ایک درخشاں ستارہ کی طرح عالم اسلام کے مطلع پر تابناکی حاصل کر لی ۔ آہستہ آہستہ یہ شہر پیروان امامت و ولایت کا مامن و پناہ گاہ قرار پا گیا ۔ یہاں تک کہ مہاجر شیعوں کی تعداد چھ ۶ ہزار تک پہنچ گئی ۔ (۵)قم کا فرہنگی ، سیاسی سابقہاہل قم نے ایسی اہمیت و عظمت حاصل کی کہ گویا حکومت اسلامی کے مرکز میں زندگی بسر کر رہے ہیں لہٰذا آغاز ظہور خلافت عباسی میں ۱۳۲ئھ سے لے کر حکومت ہارون کے اواخر تک ان لوگوں نے حکومت وقت کو ٹیکس نہیں دیا اور کسی خلیفہ میں اتنی جراٴت و ہمت نہ ہوئی کہ ان سے مقابلہ کرتا ۔ہارون الرشید کی خلافت کے زمانے میں جس میں اسلامی حکومت نے بیشترین وسعت حاصل کی ۱۸۴ئھ میں یہ طے پایا کہ محبان اہلبیت کو تحت فشار قرار دیا جائے اور ظلم و ستم کے مخالف اہل قم کی سر کوبی کی جائے ۔ اسی عزم کے تحت ہارون نے عبد اللہ بن کوشید قمی کو حکومت اصفہان ( قم اس وقت اصفہان کے توابع میں شمار ہوتا تھا ) کا حاکم قرار دیا تا کہ وہ پچاس سال سے زیادہ کا ٹیکس قم سے وصول کرے ۔ اس نے اپنے بھائی عاصم کو عامل قرار دیا ۔ عاصم مختلف اذیتوں اور آزار کے باوجود گذشتہ مالیات سے ایک درہم بھی نہ لے سکا لیکن اس نے اسی طرح مظالم کو جاری رکھا یہاں تک کہ بعض بزرگوں نے شفاعت و سفارش کی لیکن اس کا بھی کوئی نتیجہ نہ نکلا ان واسطوں کے بے اثر ہونے کے بعد عاصم بعض جان باز افراد کے ہاتھوں ہلاک ہو گیا ۔ یہی واقعہ باعث ہوا کہ عبد اللہ حکومت اصفہان سے معزول ہو گیا لیکن وہ فوراً دارالخلافہ روانہ ہوا اور اس دس ہزار درہم دے کر گزارش کی کہ اسے اس کے عہدے پر باقی رہنے دیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ اصفہان کی تابعیت سے قم خارج ہوجائے ۔ آخر کار قانع کنندہ توضیحات اور حمزہ بن یسع ( از بزرگان قم ) کے بیانات اور شہر کے ٹیکس کے ذمہ دار ہونے کے بعد ہارون نے قم کی استقلالیت کو قبول کرلیا اس کے حدود کی تعیین کے بعد جامع مسجد بنائی گئی نیز امام جمعہ کے لئے ایک منبر نصب کیا گیا ۔ ( یہ استقلال کی علامت تھی ) (۶)استقلال کے وقت اس سرزمین پر دو شہر موجود تھے ایک نیا اسلامی شہر بنام قم اور دوسرا زرد تشتیوں کا شہر بنام ” کلیدان “ حکومتی کارندے اور شہر کا قید خانہ وہیں تھا کیونکہ اہل قم عاملان حکومت کو اپنے شہر میں داخلے کی اجازت نہیں دے رہے تھے ۔ستمگروں سے اہل قم کا مبارزہاہل قم اپنے زمانے کے ستمگر حاکموں سے ہمیشہ دست و گریباں رہے اور موقع پاکر شورش و انقلاب بھی برپا کرتے تھے ۔ (نیز ٹیکس دینے ) اور حکومت کی اقتصادی حمایت سے پرہیز کرتے تھے ۔امام رضا علیہ السلام کی شہادت کے بعد اور مامون کے مظالم سے آگاہی کے بعد اہل قم نے ۲۰۳ئھ اس فاجعہ عظیم کی بنیاد پر بعنوان اعتراض اور ولایت و امامت کے مقدس حریم کی حمایت کرتے ہوئے ایک بے سابقہ انقلاب برپا کردیا اور عباسی حکمرانوں کے مقابلے میں سرکشی اختیار کرلی سالانہ مالیات دینے سے انکار کردیا ۔ اس انقلاب نے دس سال تک طول پکڑا آخر کار علی بن ہشام کی قیادت میں سپاہیوں کی یورش سے بہت سارے بزرگان شہر جن میں یحییٰ بن عمران ( اہل قم کے بزرگ جو اس قیام کے نظام کو سنبھالے تھے ) بھی تھے قتل کردئے گئے شہر کا ایک حصہ برباد ہو گیا اور گزشتہ مالیات بھی (زبردستی) وصول لی گئی ، اہل شہر آہستہ آہستہ شہر کو بنانے لگے یہاں تک کہ ۲۱۶ ہجری تک شہر پھر ایک اطمینان بخش حالات میں تبدیل ہو گیا ۔اسی سال ( معتصم کی خلافت کے زمانے میں ) لوگوں نے قم کے دارالحکومت پر حملہ کر دیا اور شہر کے عامل ( طلحی ) کو شہر سے باہر نکال دیا اور علم مخالفت بلند کردیا ۔ طلحی کے بھڑکانے پر معتصم نے وصیف ترک کی سربراہی میں سپاہی روانہ کئے تاکہ اہل شہر کو خاموش کیا جائے اس نے بھگائے ہوئے حاکم کی مدد سے مختلف حیلہ و مکر کے ذریعہ شہر میں راستہ بنا لیا اس کے سپاہی اہل شہر کے قتل اور غارت گری میں مشغول ہو گئے اور انقلابی افراد کے گھروں ، باغوں میں آگ لگانے لگے اس طرح شہر کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کردیا ۔ لیکن اس تمام قتل و غرت گری نے نفرت و بیزاری کے سوا کچھ نہ دیا ۔ اسی مخالفت و اعتراض کی بنیاد پر ایک شخص کو بنام محمد بن عیسیٰ ( جو کہ ایک خوشخو اور انسان دوست شخص تھا ) قم کی حاکمیت سونپی گئی ۔ نئے حاکم نے اپنی ساجھ بوجھ کے ذریعہ لوگوں کی رضایت حاصل کی اور محبت کی بیچ کو ان کے درمیان چھینٹ دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۴۵ ہجری تک شہر میں کوئی حادثہ رونما نہیں ہوا ۔آخر کار متوکل ( ایک جسور اور لا ابالی شخص ، جسے مقدسات دین کی اہانت کرتے ہوئے کوئی خوف و ہراس محسوس نہ ہوتا تھا مثلاً علی الاعلان حضرت علی اور حضرت صدیقہ طاہرہ علیہما السلام کو گالی دینا ، مرقد امام حسین علیہ السلام کو تاراج کرنا ) کی خلافت کے زمانے میں عاشق ولایت و امامت اہل قم بزرگان دین کے ساتھ ایسی جسارتیں اور اہانتیں دیکھنے کے بعد اس قدر غصہ ہوئے کہ موقع نکال کر حکومت عباسی کے معارضین مانند حسین کوکبی ( اشراف سادات علوی ) کا ساتھ دے کر ایک چھوٹی سے علوی حکومت تشکیل دے دی اور حکومت کے عمال کو نکال دیا ۔ تین سال تک یہ حکومت برقرار رہی ۔ آخر کار معتمد عباسی نے ”بلادجبل “ کے حاکم کو مامور کیا کہ حکومت علوی کو ختم کرکے قمیوں کے قیام کی سر کوبی کرے ۔ اس نے ایک کثیر فوج کے ساتھ حسین کوکبی کی حکومت کو ختم کرنے کے بعد اہل قم کو سرکوب کرنا اور ان کے بزرگوں کو قتل کرنا شروع کردیا ۔ بعض کو قید کر دیا ۔ لوگوں پر ظلم وستم کرنے میں اس نے اتنی زیادتی کی کہ ان لوگوں نے امان پانے کے لئے امام حسن عسکری علیہ السلام کی پناہ اختیار کی حضرت نے اس شر عظیم سے نجات پانے کے لئے انہیں ایک دعا تعلیم فرمائی کہ اسے نماز شب میں پڑھیں ، یہ سر کوبیاں ، انقلاب اور ظلم و ستم کے خلاف قیام کے آتش فشاں کو خموش نہ کر سکیں ۔اسی بنا پر اہل قم نے فقط معتمد سے درگیری کی وجہ سے یعقوب لیث کے ہمراہ ۲۶۳ ہجری میں دوبارہ اس کے مقابلے میں قیام کردیا ۔ یہ انقلاب کبھی کبھی ظہور پذیر ہوتا تھا ۔ یہاں تک کہ معتضد عباسی کی طرف سے یحییٰ بن اسحاق جو شیعہ تھے قم کے حاکم منصوب ہوئے وہ چونکہ نرم خو اور تجربہ کار انسان تھے اس لئے کوشش کی کہ خلفاء کی طرف سے لوگوں کا بغض و کینہ کم ہوجائے اور شورش و ہنگامہ کو روک سکیں وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب رہے ۔ ان کی مدد سے امن و امان اور شہر میں بنیادی اقدامات ہونے لگے ۔ مثلاً اس سرزمین کا آخری آتشکدہ بجھایا گیا ، ایک عظیم منارہ و ماذنہ مسجد ابو الصدیم اشعری کے پاس تعمیر کیا گیا جس کی اذان کی آواز شہر کو دونوں حصوں میں پہنچتی تھی ۔ (۷)فرہنگی ، سیاسی انقلاباسی زمانے میں علی بن بابویہ نے اپنی مرجعیت عامہ کے ذریع ایک بے نظیر اور پر برکت مکتب کا قم میں قیام کیا جس میں تربیت پانے والوں کی تعداد دو لاکھ تک نقل کی گئی ہے ۔ (۸)ستارہ بابویہ ہی کے طلوع کے بعد حکومت سے مبارزہ کی روش بالکل بدل گئی اور ان لوگوں نے اصولی جنگ شروع کردی۔ ایک طرف تو فرزندان بابویہ کو تقویت بخشی اور ان کی قدرت سے یکی بعد دیگری خلفاء کو ہٹاتے رہے اور طبرستان میں حکومت آل علی علیہ السلام بنام ” ناصر کبیر و ناصر صغیر “ وجود میں لے آئے تو دوسری طرف علمائے اسلام تبلیغ و ترویج معارف دینی کی خاطر قم سے امراء کی خدمت میں پہنچ گئے اور ان میں سے اکثر و بیشتر مقام وزارت و امارت و ریاست پر پہنچ گئے اور نام وزرائے قم زینت بخش تاریخ حکومت و سیاست ہوگیا ۔ حکومت رکن الدولہ دیلمی کے دور میں ابن بابویہ کے مشورہ سے ابن العمید کی وزارت اور آپ کی صلاحدید کا نتیجہ تھا کہ استاد ابن العمید کی دعوت پر شیخ صدوق نے قم سے ری کا سفر اختیار کیا ، نیز گرانقدر علمی و فرہنگی آثار جو اسی ہجرت کا نتیجہ تھے تمام کے تمام اسی بزرگ زعیم شیعی کے سیاسی اقدامات کا ثمرہ ہیں ۔اسی طرح ابن قولویہ مرحوم کا بغداد کا سفر کرنا اور وہاں مسجد براثا میں مکتب فقہ جعفری کا قیام کرنا نیز مختلف علمی ، فرہنگی اقدامات جنہوں نے تمام عالم اسلام میں وسعت پیدا کی تمام کے تمام قم مکتب ابن بابویہ کی برکتوں سے تھے ۔ یہ اسی پر برکت مکتب کا ثمرہ تھا کہ جس نے محدود انقلاب کو عظیم فرہنگی ، سیاسی انقلاب میں تبدیل کردیا اور بڑے بڑے سیاسی ، فرہنگی عہدے مکتب اہلبیت علیہم السلام کے تربیت یافتہ افراد کے اختیار میں آ گئے اور حکومت عدل و معارف شیعی کی پیاسی بشریت کو اسلام حقیقی اور شیعیت کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب کر دیا (۹) یہ نورانی ستارہ اپنی روز افزون آب و تاب کے ساتھ آج بھی لاکھوں مسلمانوں کی مشعل راہ اور ناامیدوں کی امید ہے در حقیقت قم ام القرائے عالم اسلام ، حرم اہلبیت اور آشیانہ آل محمد علیہم السلام ہے ۔قم کی مذہبی نورانیتمذہبی اور روحانی اعتبار سے قم کے امتیاز اور اس کی شرافت سے انکار کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ کل سے لے کر آج تک تیرہ سو سال کی مدت میں شیعیت کا مرکز علم و آگہی ، فضیلت و کرامت کا گہوارہ ، حکمت و معرفت کا جوش مارتا ہوا سر چشمہ ، یہی مقدس شہر جسے قم کہا جاتا ہے ۔ آئیں تشیع اور نشر معارف دینی و فرہنگی اسلام کے احیاء میں علمائے قم کی زحمتیں اس حد تک پھلدار ثابت ہوئیں کہ تاج کرامت ان کے سروں سجا دیا گیا ۔ ”لولا القمیون لضاع الدین “(۱۰) ( اگر اہل قم نہ ہوتے تو دین برباد ہو جاتا ) ۔ ہاں قم ایک ایسا شہر ہے جس کی پہلی معنوی بنیاد اصحاب و محبان اہلبیت علیہم السلام نے ڈالی ۔ خاندان اشعری نے ایمان و تولائے آل محمد علیہم السلام کے مسالے سے اس عمارت کو تعمیر کیا اور اس شہر کی بنیاد ۸۳ ہجری (۱۱) میں ڈالی اور امام محمد باقر و امام جعفر صادق علیہما السلام کے زمانے میں اس کی طراحی ہوئی یہ شہر مرکز اسلام کی سربراہی میں ایک مستقل ملک کی طرح خاص مقررات اور مزیت کا حامل تھا حتی اس دور میں بھی کہ جب شیعوں نے گھٹن کا دور دیکھا ہے اہل قم نے بدون تقیہ با کمال آزادی اس دیار مقدس میں آثار واخبار آل محمد علیہم السلام اور انکی تدوین میں کوئی کم و کاست نہ کی نیز اذان کے فلک شگاف نعرہ میں فراز ارتفاعات پر ولایت علی علیہ السلام کی شہادت دیتے تھے ۔ مکتب امامیہ خاندان اشعری کے توسط سے پہلی مرتبہ قم میں افتتاح پذیر ہوا جس میں فقہ شیعہ علی الاعلان پڑھائی جاتی تھی ۔ اس طرح ہدایت کے مشعل اس شہر میں روشن ہو گئی ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل قم ہمیشہ ائمہ معصومین کی عنایت خاصہ کے مورد نظر رہے ۔ ائمہ معصومین علیہم السلام نے قم اور اہل قم کی فضیلت و عظمت کے بارے میں مختلف حدیثیں ارشاد فرمائی ہیں ان احادیث میں سے کچھ چنندہ حدیثیں ذکر کی جاتی ہیں :۱- قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم لما اسری بن الی السماء حملنی جبرئیل علی کتفہ الایمن فنظرت الی بقعۃ بارض الجبل حمراء احسن لونا من الزعفران و اطیب ریحا من المسک فاذا فیہا شیخ علی راٴسہ برنس فقلت لجبرئیل : ما ہذہ البقعۃ الحمراء التی ہی احسن لونا من الزعفران و اٴطیب ریحا من المسک ؟قال : بقعۃ شیعتک و شیعۃ وصیک علی علیہ السلام ۔ فقلت: من الشیخ صاحب البرنس ؟ قال : ابلیس ۔ فقلت : فما یرید منہم ؟ قال : یرید ان یصدہم عن ولایۃ امیر الموٴمنین و یدعوہم الی الفسق و الفجور ۔ قلت : یا جبرئیل اہو بنا الیہم ، فاٴہویٰ بنا الیہم اسرع من البرق الخاطف و البصر الامع ، فقلت : قم یا ملعون ! فشارک اعدائہم فی اموالہم و اولادہم فان شیعتی و شیعۃ علیٍ لیس لک علیہم سلطان ، فسمیت قم ۔ (۱۲)ترجمہ : رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ فرماتے ہیں : کہ جب مجھے آسمان کی سیر کرائی گئی تو جبرئیل نے مجھے اپنے داہنے شانے پر اٹھایا تو اس وقت میں نے ” ارض جبل “ میں ایک بقعہ کی طرف دیکھا جو سرخ رنگ اور زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور مشک سے زیادہ خوشبو دار تھی ، ناگہاں اس سرزمین پر ایک بوڑھے کو دیکھا جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی تھی ۔ میں نے جبریل سے پو چھا! یہ کون سی زمین ہے کہ جس کی سرخی زعفران سے زیادہ خوش رنگ اور جس کی خوشبو مشک سے زیادہ ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : یہ آپ کے اور آپ کے وصی علی علیہ السلام کے شیعوں کا بقعہ ہے ۔ پھر میں نے پوچھا : یہ بوڑھا کون ہے جس کے سر پر ایک لمبی سی ٹوپی ہے ؟ تو جبرئیل نے جواب دیا : ابلیس ہے (یہ سنتے ہی ) میں نے ( جبرئیل سے ) کہا :اے جبرئیل مجھے وہاں لے چلو جبرئیل نے برق رفتاری سے بھی زودتر مجھے وہاں پہنچا دیا ۔ پس میں نے اس سے کہا : اٹھ جا ائے ملعون اور دشمنان شیعہ کے اموال و اولاد و خواتین میں شریک ہو کیونکہ میرے اور علی کے دوستداروں پر تیرا کوئی تسلط نہیں ہے ۔ اسی وجہ سے اس کا نام ” قم “ ہو گیا ۔ (۱۳)۲- قال الصادق علیہ السلام : انما سمی قم لان اہلہ یجتمعون مع قائم آل محمد و یقومون معہ و یستقیمون علیہ و ینصرونہ ۔ (۱۴)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اس شہر کا نام قم اس لئے رکھا گیا کہ اس شہر کے لوگ قائم آل محمد علیہم السلام کے ساتھ اجتماع کریں گے اور ان کے ساتھ قیام کریں گے اور اسپرڈٹے رہیں گے نیز ان کی مدد کریں گے ۔۳-قال الامام کاظم علیہ السلام : قم عش آل محمد و ماٴوی شیعتہم ۔ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : قم آشیانہ آل محمد اور شیعوں کی پناہ گاہ ہے ۔ (۱۵)۴-قال الامام الرضا علیہ السلام : ان للجنۃ ثمانیۃ ابواب و لاہل قم واحد منہا فطوبی لہم ثم طوبی لہم ثم طوبی لہم (۱۶)ترجمہ : امام رضا علیہ السلام نے فرمایا : بہشت کے آٹھ ابواب ہیں ان میں سے ایک اہل قم کے لئے ہے پس ان کے لئے خوشا بحال ۔ (حضرت نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا )۵-قال الامام الصادق علیہ السلام : سیاٴ تی زمان تکون بلدۃ قم و اہلہا حجۃ علی الخلائق و ذلک فی زمان غیبۃ قائمنا الی ظہورہ ۔ (۱۷)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : ایک زمانہ ایسا آئے گا شہر قم اور وہاں کے رہنے والے تمام لوگوں پر حجت ہونگے اور یہ زمانہ ہمارے قائم (عج) کی غیبت میں ہوگا یہاں تک کہ وہ ظہور کریں ۔۶-قال الامام الصادق علیہ السلام :تربۃ قم مقدسۃ و اہلہا منا و نحن منھم لا یریدہم جبار بسوء الا عجلت عقوبتہ ما لم یخونوا اخوانہم ۔ (۱۸)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تربت قم مقدس ہے اہل قم ہم میں سے ہیں اور ہم ان سے ہیں کوئی ستمگر ان کے ساتھ برائی کا قصد نہیں کرسکتا ہے مگر یہ کہ اس کے عذاب میں تعجیل ہوگی تا وقتیکہ لوگ اپنے دینی بھائی سے خیانت نہ کریں ۔۷-قال الامام الصادق علیہ السلام : محشر الناس کلہم الی بیت المقدس الا بقعۃ بارض الجبل یقال لہا قم فانہم یحاسبوا فی حفرہم و یحشرون من حفرہم الی الجنۃ ۔ (۱۹)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : تمام لوگ بیت المقدس کی طرف محشور ہوں گے مگر سرزمین ” ارض الجبل “ کے افراد جسے قم کہتے ہیں ان لوگوں کا حساب انہی کی قبروں میں ہوگا اور وہیں سے جنت کی طرف محشور ہوں گے ۔۸-عن الامام الصادق علیہ السلام : ( ا نہ علیہ السلام اشار الی عیسی بن عبد اللہ ) فقال : سلام اللہ علی اہل قم ، یسقی اللہ بلادہم الغیث و ینزل اللہ علیہم البرکات و یبدل اللہ سیاٴتہم حسنات ہم اہل رکوع و سجود و قیام و قعود ، ہم الفقہاء الفہماء ہم اہل الدرایۃ و الروایۃ و حسن العبادۃ ۔ (۲۰)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اہل قم پر خدا کا سلام ہو ، خدا ان کے شہر کو بارش رحمت سے سیراب کرے اور ان پر برکتیں نازل فرمائے ، ان کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل ڈالے ۔ یہ لوگ اہل رکوع و سجود و قیام و قعود ہیں یہ لوگ فہمیدہ فقہاء ہیں ۔ یہ لوگ اہل روایت و درایت اور بہترین عبادت کرنے والے ہیں ۔۹-قال ابو الصلت الہروی کنت عند الرضا علیہ السلام فدخل علیہ قوم من اہل قم فسلموا علیہ فرد علیہم و قربہم ثم قال لہم : مرحبا بکم و اہلا فاٴنتم شیعتنا حقا ۔ (۲۱)ترجمہ : ابو صلت ہروی کہتے ہیں کہ ہم لوگ امام رضا علیہ السلام کے پاس تھے کہ اسی اثناء میں قم کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے پس ان لوگوں نے حضرت کو سلام کیا تو حضرت نے جواب سلام دیا اور اپنے نزدیک بیٹھا یا پھر ان سے فرمایا ۔ مرحبا خوش آمدید تم لوگ ہمارے حقیقی شیعہ ہو ۔۱۰-قال الامام الصادق علیہ السلام : ستخلو کوفۃ من الموٴمنین و یاٴزر عنہا العلم کما تاٴزر الحیۃ فی حجرہا ثم یظہر العلم ببلدۃ یقال لہا قم ، یصیر معدنا للعلم و الفضل ۔ (۲۲)ترجمہ : امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : عنقریب کوفہ موٴمنوں سے خالی ہو جائے گا اور علم وہاں سے اس طرح جمع ہو جائے گا جس طرح سانپ اپنے بل میں خود کو لپیٹ لیتا ہے پھر ایک شہر میں علم ظاہر ہوگا جسے قم کہتے ہیں اور وہ مرکز علم و فضل قرار پائے گا ۔۱۱- روی بعض اصحابنا قال : کنت عند ابی عبد اللہ علیہ السلام جالسا اذ قرء ہذہ الآیۃ : ”فاذا جاء وعد اولٰہما بعثناعلیکم عبادا لنا اولیٰ باٴس شدید فجاسوا خلال الدیار و کان وعدا مفعولا “ (سورۃ بنی اسرائیل / ۵) فقلنا : جعلنا فداک ۔ من ہوٴلاء ؟ فقال ثلاث مرات ہم واللہ اہل قم ۔ (۲۳)ترجمہ : ہمارے بعض اصحاب نے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں : میں امام جعفر صادق علیہ السلام کے پاس بیٹھا تھا کہ اسی اثناء میں آپ نے اس آیہ شریفہ ” فاذا جاء وعد“ (پھر جب ان دو فسانوں میں پہلے کا وقت آپہونچا تو ہم نے تم پر کچھ اپنے بندوں (بخت النصر) اور اس کی فوج مسلط کردیا جو بڑے سخت لڑنے والے تھے تو وہ لوگ تمہارے گھروں میں گھسے( اور خوب قتل و غارت کیا اور خدا کے عذاب کا وعدہ تو پورا ہو کر رہا ) کی تلاوت فرمائی ۔ تو ہم لوگوں نے پوچھا ہماری جانیں آپ پر قربان ہوں اس آیت سے مراد کون لوگ ہیں تو آپ نے تین مرتبہ فرمایا خدا کی قسم وہ اہل قم ہیں ۔۱۲- قال الامام الکاظم علیہ السلام : رجل من اہل قم یدعو الناس الی الحق یجتمع معہ قوم کزبر الحدید لا تزلہم الریاح العواصف و لا یملون من الحرب و لا یجبنون و علی اللہ یتوکلون و العاقبۃ للمتقین ۔ (۲۴)ترجمہ : امام کاظم علیہ السلام نے فرمایا : اہل قم میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی دعوت دے گا ۔ ایک گروہ آہن کی طرح استحکام کے ساتھ اس کی ہمراہی کرے گا جسے حوادث کی تند ہوائیں ہلا نہیں پائیں گی وہ لوگ جنگ سے تھکن محسوس نہیں کریں گے ، اور نہ ہی ڈریں گے وہ لوگ خدا پر بھروسہ رکھنے والے ہونگے ( بہترین ) عاقبت تو پرہیزگاروں کے لئے ہے ۔۱۳- قال الامام الصادق علیہ السلام : ان اللہ احتج بالکوفۃ علی سائر البلاد و بالموٴمنین من اہلہا علی غیرہم من اہل البلاد و احتج ببلدۃ قم علی سائر البلاد و باہلہا علی جمیع اہل المشرق و المغرب من الجن و الانس و لم یدع اللہ قم و اہلہا مستضعفا بل وفقہم و ایدہم ۔ (۲۵)ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : اللہ نے کوفے کو سارے شہر پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے با ایمان افراد کو دوسرے شہر کے لوگوں پر حجت قرار دیا ہے اور شہر قم کو دوسرے شہروں پر حجت قرار دیا ہے اور وہاں کے لوگوں کو مشرق و مغرب کے تمام جن و انس پر حجت قرار دیا ہے ۔ خداوند عالم نے قم اور اہل قم کو یونہی نہیں چھوڑدیا کہ مستضعف اور غریب ( فکری و فرہنگی ) ہوجائیں بلکہ انہیں توفیق دی اور ان کی تائید فرمائی ہے ۔۱۴- قال الامام الصادق علیہ السلام : ان لِلّٰہِ حرما و ہو مکہ و ان للرسول حرما و ہو المدینہ و ان لامیرالموٴمنین حرما و ہو الکوفۃ و ان لنا حرما و ہو قم و ستدفن فیہا امراٴۃ من اولادی تسمی فاطمۃ فمن زارہا وجبت لہ الجنۃ ۔ (قال الراوی : و کان ہذا الکلام منہ قبل ان یولد الکاظم علیہ السلام )۔ (۲۶)ترجمہ : امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : بے شک خدا کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے ، رسول خدا صل اللہ علیہ و آلہ کے لئے ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے امیرلموٴمنین علیہ السلام کے لئے ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے ، ہمارے لئے ایک حرم ہے اور وہ قم ہے عنقریب ہماری اولاد میں سے ایک خاتون وہاں دفن کی جائے گی جس کا نام فاطمہ ہوگا جو اس کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوگی ۔راوی کہتا ہے کہ امام علیہ السلام نے یہ حدیث اس وقت ارشاد فرمائی تھی کہ جب امام موسیٰ کاظم علیہ السلام ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔اس کے علاوہ ائمہ معصومین علیہم السلام اہل قم اور وہاں کے بعض بزرگوں کو اپنی عنایتوں کے سایہ میں رکھتے تھے ان کے لئے ھدیئے خلعتیں مثلا انگوٹھی ، کفن کا کپڑا بھیجا کرتے تھے ۔ (۲۷) نیز بعض بزرگوں کے حق میں گرانقدر حدیثیں بیان فرمائی ہیں بطور نمونہ بعض حدیثیں مذکور ہیں :۱۔ امام رضا علیہ السلام نے زکریا بن آدم سے اس وقت فرمایا کہ جب وہ قم سے باہر جانا چاہتے تھے : قم سے باہر نہ جاوٴ ( کیونکہ ) خدا تمھاری وجہ سے اہل قم سے بلا کو دور رکھتا ہے جس طرح موسیٰ بن جعفر علیہ السلام کے وجود نے اہل بغداد سے بلا کو دور رکھا ۔ (۲۸)۲۔ امام صادق علیہ السلام نے عیسیٰ بن عبد اللہ قمی کے بارے میں فرمایا : تم ہمارے اہل بیت میں سے ہو ۔ پھر حضرت نے فرمایا عیسیٰ بن عبد اللہ ایسے انسان ہیں جنھوں نے اپنی حیات و ممات کو ہماری موت و زندگی سے ہم آہنگ کر لیا ہے ۔ (۲۹)۳۔ امام صادق علیہ السلام نے عمران بن عبد اللہ قمی سے فرمایا : خداوند عالم سے درخواست کرتا ہوں کہ تم کو اور تمھارے خاندان کو روز قیامت ( جہاں کوئی سایہ نہیں ہوگا ) اپنی رحمت کے سایہ میں قرار دے ۔ (۳۰)•

تہران

صوبہ تهران

صوبہ تهران ایران کا ایک صوبہ اس کا دارلحکومت تہران ہے جو ملک کا بھی صدر مقام ہے۔{{Geographic location |Centre=صوبہ تہران |North=صوبہ مازندران |Northeast=|East=صوبہ سمنان |Southeast=|South=صوبہ قم |Southwest=صوبہ مرکزی |West=|Northwest=صوبہ البرز }

 

تھران کے گلي محلوں کے نام رکھے جانے کي وجہ۔

محموديهيہ علاقہ پارک وي و تجريش يا ولي عصر سے لے کر ولنجک تک پھيلا ہوا ہے - اس علاقے ميں ايک باغ تھا جو حاج ميرزا آقاسي کي ملکيت ہوا کرتا تھا اور چونکہ اس کا نام " عباس " تھا اس ليۓ اسے " عباسيھ " کہا گيا - بعد ميں علاءالدولھ نے اس بڑے باغ کو حکومت سے خريدا اور بيٹے محمود خان کے نام پر اس کا نام " محموديھ " رکھ ديا -نياوراناس علاقے کا پرانا نام " گردوي " تھا اور بعض لوگوں کا خيال ہے کہ ناصرالدين شاہ کے زمانے ميں اس ديہات کو " نياوران " کا نام ديا گيا ہے - لفظ کي ترتيب پر اگر غور کيا جاۓ تو "نيا" (حد، عظمت و قدرت‌) ؛"ور" (صاحب‌) و "ان‌" علامت نسبت ہے - مجموعي طور پر يعني عظمت کا حامل محل -ونکيہ تھران کا ايک معروف علاقہ ہے - لفظ ونک دو حروف سے بنا ہے " ون " ايک درخت کا نام اور حرف " ک " صفت کے طور پر استعمال ہوتا ہے -يوسف آباداس علاقے کو ميرزا يوسف آشتياني نے تحفہ ديا اور اپنے نام کي نسبت سے اسے " يوسف آباد " قرار ديا -پل چوبيجو تھران آج ہم جديد شکل ميں ديکھ رہے ہيں يہ مختلف ادوار ميں ترقي کي منازل طے کرتے ہوۓ اس حالت ميں ہم تک پہنچا ہے - اس سے پہلے شہر کے مختلف اطراف ميں دروازۓ موجود تھے تاکہ اس شہر کا دفاع ممکن بنايا جا سکے اور صرف 

مازندران

مازندران

مازندران ایران کا ایک ساحلی صوبہ ہے جس کی سرحدیں گیلان کے مسشرقی بارڈر سے لے خراسان تک اور شمال مغرب میں ترکمنستان تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اس صوبے کا رقبہ 46500 مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریبا 4 ملین سے زائد ہے ۔ جنوب کی طرف اس صوبے کی سرحدیں ایران کے دوسرے صوبوں تہران ، سمنان اور زنجان سے جا ملتی ہیں ۔ یہ صوبہ دو طرح کے جیوگرافیکل علاقوں میں تقسیم ہے ۔ ایک وہ علاقہ جو صوبہ گیلان سے گرگان تک دریاۓ خزر کے ساحل کے ساتھ ساتھ واقع ہے ۔ اس علاقے کی آب و ہوا صوبہ گیلان کی آب و ہوا سے ملتی جلتی ہے ۔ دوسرا علاقہ ڈھلوانی ہے جو سمندر کے ساتھ ہے اور گنے جنگلات پر مشتمل ہے ۔پرانے زمانے میں اس صوبے کو tabarestan کہا جاتا تھا ۔ یہ علاقہ ماضی کی نسبت آباد کاری کے لیۓ زیادہ پرکشش ہے ۔ جنگلات اور زرعی آبادی کا بہت سا حصّہ نئی آبادی کی زد میں آ چکا ہے ۔کھیتی باڑی کے لیۓ مازندران ، ایران کے بہترین علاقوں میں سے ایک ہے ۔ چاول اور اناج یہاں کی مشہور فصلیں ہیں ۔ اس کے علاوہ پھلوں میں مازندران کے سنگترے بہت اعلی معیار کے ہوتے ہیں ۔ بعض علاقوں میں تمباکو بھی کاشت کیا جاتا ہے ۔ ماہی گیری صوبہ گیلان کی نسبت کم ہے مگر اس کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔صوبہ مازندران کا درالخلافہ " ساری " ہے جو ایک گنجان آباد شہر ہے ۔ سازگار حالات اور موسم کی وجہ سے صوبہ مازندران کو صوبہ گیلان سے بہت پہلے آباد کیا گیا تھا ۔ صوبہ مازندران کے شمال مشرق میں واقع جنگلات مشرق میں واقع جنگلات کی نسبت کم گنے ہیں ۔ ساحل کے کنارے واقع سرسبز ہونے کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اندرون اور بیرون ملک سے بہت سے سیاح یہاں سیاحت کی غرض سے آتے رہتے ہیں ۔

البرز

شہرستان اشتہارد ( لاطینی: Eshtehard County) ایران کا ایک شہرستان ایران جو صوبہ البرز میں واقع ہے۔ 

شہرستان ساوجبلاغ ( لاطینی: Savojbolagh County) ایران کا ایک شہرستان ایران جو صوبہ البرز میں واقع ہے۔ 

شہرستان ساوجبلاغ کی مجموعی آبادی 189,305 افراد پر مشتمل ہے۔

شہرستان اشتہارد کی مجموعی آبادی 23,601 افراد پر مشتمل ہے۔

شہرستان طالقان ( لاطینی: Taleqan County) ایران کا ایک شہرستان ایران جو صوبہ البرز میں واقع ہے۔ 

شہرستان طالقان کی مجموعی آبادی 25,781 افراد پر مشتمل ہے۔

شہرستان نظرآباد ( لاطینی: Nazarabad County) ایران کا ایک شہرستان ایران جو صوبہ البرز میں واقع ہے۔ 

شہرستان نظرآباد کی مجموعی آبادی 128,666 افراد پر مشتمل ہے۔

شہرستان کرج ( لاطینی: Karaj County) ایران کا ایک شہرستان ایران جو صوبہ البرز میں واقع ہے۔ 

شہرستان کرج کی مجموعی آبادی 1,709,481 افراد پر مشتمل ہے۔

البرز
قزوین

صوبہ قزوین ایران کا ایک صوبہ ہے۔

یحیی آباد، قزوین ( لاطینی: Yahyaabad, Qazvin)ایران کا ایک رہائشی علاقہ جو Qaqazan-e Sharqi Rural District میں واقع ہے۔

زنجان

زنجان

اگر آپ کو ايران کے شہر زنجان جانے کا کبھي اتفاق ہو تو جہاں آپ اس علاقے کا قدرتي حسن اور دوسرے تاريخي مقامات ديکھيں گے وہيں اس علاقے کے معروف پل کو بھي ديکھنے کا آپ کو موقع ملے گا - اس پل کا نام " مير بھاءالدين " ہے - يہ پل زنجانرود ندي پر واقع ہے - اس پل کے بارے ميں خيال يہ کيا جاتا ہے کہ اسے قاجاري دور حکومت ميں بنوايا گيا مگر اب بھي يہ شہر کا ايک اہم پل تصور ہوتا ہے -اس پل کو قديم پل يا بڑے پل کے نام سے بھي پکارا جاتا ہے - يہ زنجان شہر کے جنوبي حصے ميں واقع ہے- يہ پل زنجان سے کردستان کي طرف جاتے ہوۓ راستے ميں آتا ہے - يہ بھي کہا جاتا ہے کہ اس پل کو ناصرالدين شاہ نے بنوايا تھا - اس پل کي تعمير کي تاريخ کے بارے ميں کہا جاتا ہے کہ اسے سن 1312 ہجري قمري ميں بنوايا گيا اور 1336 ہجري قمري ميں اسے ايران کے نيشنل آثار کي فہرست ميں شامل کر ديا گيا -يہ پل اينٹوں سے بنا ہوا ہے - اس کي بناوٹ ميں اس کي خوبصورتي کو بہت اہميت دي گئي اور اس کا وسطي دھانہ دوسرے دھانوں کي نسبت قدرے بڑا ہے - درميان ميں خط معقلي ميں اس پل پر ياعلي کے مقدس حروف لکھے گۓ ہيں اور اس کي تعمير کي تاريخ بھي درج ہے -اس پل کي لمبائي 100 ميٹر ہے اور اس کي چوڑائي 70/6 ميٹر ہے - اس پل کي بلندي 11 ميٹر ہے -يہ ايک تاريخي پل ہے اور يہ زنجان کے قديم پلوں ميں سالم رہ جانے والا سب سے قديم اور بڑا پل ہے - يہ تقريبا 100 سال سے بھي قديم پل ہے - اس پل کو ديکھنے کے ليۓ آپ کو شہر کے جنوبي حصے کا رخ کرنا ہو گا

يہ پل زنجان رود ندي پر واقع ہے جو زنجان سے گزرتي ہے - اس ندي ميں سرديوں اور بہار کے موسم ميں پاني ہوتا ہے جبکہ گرميوں ميں يہ ندي خشک ہو جاتي ہے -

 

ایران کا سب سے لمبا بازار

یہ بازار ایران کے شہر زنجان میں واقع ہے اور اس کی لمبائی تقریبا دو کلومیٹر ہے ۔ یہ شہر کے مرکز میں واقع تاریخی عمارات کے قریب " دروازہ قلتوق " کےساتھ واقع ہے ۔ یہ دروازہ اصل میں قدیم دور میں شہر کا جنوبی دروازہ ہوا کرتا تھا ۔ تاریخی روایات سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس بازار کی بنیاد سن 1205 ہجری قمری میں آغا محمد خان قاجار کے دور حکومت میں رکھی گئی اور بعد میں فتح علی شاہ قاجار کے دور حکومت میں اس کو مکمل کر لیا گیا ۔ بعد میں آنے والے حکمرانوں نے اس بازار میں مہمان سرا، مسجد اور دوسری چھوٹی عمارتوں کا اضافہ کیا ۔یہ بازار مشرق سے مغرب کی طرف سے پھیلا ہوا ہے اور اس لحاظ سے اس کو نیچے والا بازار اور اوپر والا بازار کے نام دے کر دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ اوپر والے بازار میں قیصریہ اور امام زادہ واقع ہے اور شہر کا بہت اہم اقتصادی اور تجارتی مرکز اس حصے میں واقع ہے جس کی وجہ سے اس حصے کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔اس بازار میں بہت سی نادر اشیاء تولید کی جاتی ہیں اور ان اشیاء کے ناموں کی مناسبت سے بازار کو مزید 8 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔عمارت کو بہت ہی نزاکت اور مہارت کے ساتھ تیار کیا گیا ہے جو قاجار دور کے حکمرانوں کی فنی مہارت اور فن معماری میں دلچسپی کو ظاہر کرتی ہے ۔ ملک کےاندر سے آنے والے سیاحوں اور مسافروں کے لیۓ یہ جگہ بہت ہی دلچسپی کا باعث ہوتی ہے جس کو دیکھ کر انہیں ایران کی شاندار تاریخ کے بارے میں اچھی خاصی معلومات پہچتی ہیں ۔

صوبہ جیلان

صوبہ جیلان (فارسی: اُستان گیلان، انگریزی: Gilan Province) ایران کے تیس صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے۔ ۔ بحیرہ کیسپین کے مغربی ساحل اور کوہ البرزکے درمیان نشیب میں واقع ہے۔ اس کا بحیرہ کیسپین کے ساتھ کا علاقہ غیر صحت بخش ہے۔ جہاں دلدلیں بہت ہیں۔ جنوبی حصہ بتدریج بلند ہوتا گیا ہے اور اس کی آب و ہوا صحت بخش ہے۔ یہاں جنگل بہت ہیں جن میں جانور بکثرت پائے جاتے ہیں۔ لوگ ایرانی النسل اور فارسی بولتے ہیں۔ جیلان نام کا ایک گاؤں بغداد کے پاس بھی ہے۔ مشہور بزرگ حضرت عبد القادر جیلانی یہیں کے رہنے والے تھے۔

رشت (Rasht)

رشت صوبہ گیلان کا دارلخلافہ ہے جو ایران کے شمالی حصے میں واقع ہے ۔ اس کا شمار ایران کے خوبصورت ترین شہروں میں ہوتا ہے ۔ یہ شہر سطح سمندر سے سات میٹر پستی پر واقع ہے اور بندرگاہ انزلی سے اس کا فاصلہ صرف 15 کلو میٹر ہے ۔ بحیرہ خزر کے کنارے واقع ہونے کے ساتھ علاقے کا صنعتی مرکز بھی یہی شہر ہے ۔ سمندر کے کنارے ہونے کی وجہ سے یہاں ہوا میں نمی کا تناسب بھی زیادہ ہوتا ہے ۔ گذشتہ چند سالوں میں اس شہر کی آبادی میں کافی اضافہ ہوا ہے جس کی وجہ سے شہرسے ملحقہ خوبصورت علاقے آبادی کی لپیٹ میں آتے جا رہے ہیں ۔تہران سے اس کا فاصلہ 324

گیلان

کلو میٹر ہے اور ان دونوں شہروں کو جدید موٹروے کے ذریعے ملایا گیا ہے ۔ ہر ہفتے کے اختتام اور چھٹیوں میں تہران سے سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں تفریح کے لیے آتی ہے ۔ آب و ہوا میں تبدیلی اور دلکش مناظر دیکھنے کے لیۓ یہ ایک بہترین جگہ ہے ۔ بیرونی ممالک سے آنے والے سیاحوں کے لیے یہ راحت بخش مقام ہے ۔ اس شہر کو بہت جدید سڑکوں کے ذریعے ارد گرد کے شہروں سے ملایا گیا ہے ۔شہر میں تعمیرات کے لحاظ سے کوئی قابل قدر عمارت تو نہیں ہے مگر قدرتی خوبصورتی کے ساتھ ساتھ دلچسپی کی بہت سی دوسری چیزیں یہاں موجود ہیں ۔ رشت میں ریشم کی فیکٹری ،چاۓکی سے اس کا فاصلہ 324 فیکٹری،ڈھلوان زمین پر کاشت کی ہوئی چاول کی فصلیں اور پتھریلی زمین پر سرسبز کھیت قابل دید مقامات ہیں ۔ دریاۓ خزر کے ساتھ عمارات اور فارم ہاؤسز ایرانی معماری کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں ۔رشت نے چودھویں صدی عیسوی میں ایک شہر کی شکل اختیار کرنا شروع کی جب صوبہ گیلان سے لوگوں نے یہاں آ کر آباد ہونا شروع کر دیا ۔ اس شہر پر روس نے متعدد بار قبضہ کیا اور 1668 ء میں Cossack brigand stenka razin کے باغیوں نے شہریوں کا بڑی تعداد میں قتل عام کیا ۔ پہلی جنگ عظیم میں روس نے دوبارہ قبضہ کر لیا اور 1920 ء میں Bolsheviks نے بازار کا بیشتر حصہ تباہ کرنے کے ساتھ مقامی آبادی کو شہر چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ آج کل رشت چاول اور ریشم کی صنعت کے حوالے سے مشہور ہے ۔ شہر کے تین بازار ،ڈاکٹر شریعتی ،سعدی اور امام خمینی وسطی چوک (شھداء) میں آ کر ختم ہوتے ہیں ۔ اس چوک کے گرد دلچسپی کی بہت چیزیں ہیں اور ہوٹل بھی تھوڑے ہی فاصلے پر موجود ہیں ۔ اس علاقے کی ایک پہچان یہاں کے چاۓ خانے ہیں جو اپنی انفرادی خصوصیات کی وجہ سے بہت شہرت کے حامل ہیں ۔ سبزہ میدان سے 250 میٹر کے فاصلے پر میوزیم ہے جہاں نادر اشیاء سیاحوں کی منتظر ہیں ۔ اس کے علاوہ شہر کے بازار بھی خریداری کے لیۓ سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتے ہیں ۔

صوبہ گیلان کے پرکشش اور جاذب مقام پر ایک ایسا شہر واقع ہے جو گیلان کی گمشدہ جنت کے نام سے مشہور ہے ۔ اس شہر کا نام " ماسال " ہے جو نہایت ہی خوبصورت مقام ہے ۔ جو لوگ سال ہا سال سے اس علاقے میں زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی جب اس مقام کو دیکھتے ہیں تو ان کو بھی ایک تازگی کا احساس ہوتا ہے ۔ماسال میں گنے و سرسبز جنگلات ، آسمان کی بلندیوں کو چھوتے درخت، قدرتی آبشاریں، غاریں، جنگلی جانور اور دوسری بہت سی حسین چیزیں ہیں جس کی وجہ سے قدرتی نظاروں سے لطف اندوز ہونے کے لیۓ سیاحوں کی آمد و رفت کا سلسلہ یہاں ہمیشہ جاری رہتا ہے ۔اس شہر کی مساحت 622 کلومیٹر مربع میٹر ہے اور اس کی آبادی 50 ہزار افراد پر مشتمل ہے ۔ یہاں پر بسنے والے لوگوں کی زبان " تالشی " ہے ۔ یہ لوگ بےحد مہمان نواز ہیں اور ان سے جس قدر بھی ممکن ہو باہر سے آنے والے سیاحوں کے ساتھ تعاون کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔یہ شہر اپنے قدرتی اور طبیعی حسن کی وجہ سے سیاحت کا مرکز ہے ۔ اس شہر میں قدرتی کشش کے علاوہ تاریخی آثار بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں ۔ تاریخی مقامات میں کول نامی قلعہ، شہرگاہ ، دورہ اشکانی کا قبرستان، درہ خون، قدیم علاقے خندیلہ پشت ، پیلاقی درا ، النزہ اور رحیمی خاندان کی قدیم عمارتیں شامل ہیں ۔یہ شہر بلند آبشاروں کی وجہ سے بھی کافی مشہور ہے ۔ ییلاقی النزہ کے علاقے میں واقع ویوز نامی آبشار ، 15 میٹر سے بھی بلند آبشار خون ، آبشار تولی نساء اور آبشار رامینہ یہاں کی مشہور آبشاریں شمار ہوتی ہیں ۔اس علاقے میں تقریبا 17 غاریں دریافت ہوئی ہیں جن میں سب سے اہم اور بڑی غار آویشو ہے ۔ یہ 22 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے ۔ اس غار کا دھانہ 15 میٹر بلند اور دھلیز 50 سے 30 میٹر ہے ۔ رودخانہ خالکایی کے قریب واقع پارک ساحلی ماسال بھی سیاحت کے لیۓ ایک اچھا مقام ہے جہاں اکثر لوگ پوارا دن تفریح کی غرض سےگزارنے آتے ہیں ۔

صوبہ اردبیل

صوبہ اردبیل (فارسی: استان اردبیل) ( انگریزی: Ardabil Province) ایران کا شمال مغربی صوبہ ہے جسکا رقبہ 17,800 مربع کلومیٹر اور آبادی 2005ء کے تخمینہ کے مطابق لگ بھگ 1,257,624 ہے۔ علاقہ آزری لوگوں یا آذربائجان کی زبان بولنے والوں سے آباد ہے۔ تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے بھی صوبہ آذربائجان سے تعلاقات رکھتا ہے۔ صوبہ کی سرحدیں مملکت آذربائجان اور ایرانی صوبہ آذربائجان شرقی، صوبہ زانجان اور صوبہ گیلان سے ملتی ہیں۔ صوبائی مرکز یا صدر مقام اردبیل ہے۔ صوبہ 1993ء میں صوبہ آذربائجان شرقی کو تقسیم کر کے بنایا گیا تھا۔موسم کے لحاظ سے صوبہ ایران کے خوشگوار ٹھنڈے علاقوں میں شامل کیا جاتا ہے جہاں گرمیوں میں زیادہ سے زیادہ درجہ حرارت 35 درجہ سینٹی گریڈ تک ہوتا ہے اور صوبہ گرمیوں کے موسم میں ایرانی اور غیر ملکی سیاحوں کے آماجگاہ بنتا ہے۔ سردی کا موسم زیادہ سرد ہوتا ہے جہاں درجہ حرارت منفی 25 درجہ سینٹی گریڈ تک بھی گر جاتا ہے۔صوبائی صدر مقام اردبیل کے علاوہ صوبہ کے دیگر اہم شہروں میں پارس‌آباد، خلخال، مِشگین ‌شهر شامل ہیں۔

اردبیل
آذربائیجان شرقی

صوبہ آذربائیجان شرقی :

(انگریزی: East Azarbaijan)

ایران کے شمال مغربی علاقہ میں واقع صوبہ ہے جسکی سرحدیں مملکتآرمینیا، آذربائجان اور ایرانی صوبہ جات صوبہ اردبیل، صوبہ آذربائیجان غربی اور زانجان سے ملتی ہیں۔ صوبہ کا شمار ایران کے تاریخی علاقوں میں ہوتا ہے، جہاں کے فنون لطیفہ ایران اور ایرانی ثقافت و موسیقی کی پہچان ہیں۔ صوبائی صدر مقام ایران کا تاریخ شہر تبریز ہے۔علاقہ کا رقبہ 47,830 مربع کلومیٹر اور آبادی 2005ء کے تخمینہ کے مطابق لگ بھگ چالیس لاکھ ہے۔ علاقہ زیادہ تر پہاڑی ہے اور موسم سرد و خشک ہے۔آج کا آذربائجان شرقی ایران کا صنعتی مراکز ہے، جہاں 5000 سے زیادہ کارخانے ہیں۔ اہم صنعتوں میں شیشہ سازی، کاغذ سازی، کھانے پینے کی سربندی، چمڑہ سازی اور جوتا سازی اور تانبا کی مصنوعات بنانے کے کارخانوں کے علاوہ تبریز آئل ریفائنری اینڈ پیٹروکیمیکل کمپلیکس، تبریز ٹریکٹر مینوفیکچرنگ کمپنی، تبریز مشین مینوفیکچرنگ کمپنی اور آذربائجان اسٹیل ہیں۔ اسکے علاوہ تبریز دستکاریوں کے لیے بھی شہرت رکھتا ہے جہاں کے قالین اپنے رنگ اور معیار کی وجہ سے پوری دنیا میں پہچانے جاتے ہیں۔ ایک اندازہ کے مطابق علاقہ میں 66000 کے لگ بھگ قالین بننے کے مراکز ہیں جو دو لاکھ افراد کو روزگار فراہم کرتے ہیں۔ ایران سے برآمد کی جانے والی قالینوں کا 35 فیصد صوبہ آذربائجان شرقی میں تیار ہوتا ہے۔ آذربائیجان شرقی کا شمار ایران کے امیر ترین علاقوں میں ہے جو صنعتوں اور دستکاریوں کے علاوہمعدنی

دولت سے بھی مالامال ہے، جہاں 1997ء تک 180 کانیں کام کر رہی ہیں اور 121 زیر تعمیر ہیں۔

 

 

 

 

 

صوبہ آذربائیجان غربی

صوبہ آذربائیجان غربی (فارسی: استان آذربایجان غربی‎،انگریزی: West Azerbaijan Province) ایران کے تیس صوبوں میں سے ایک صوبہ ہے۔

زراعتی مرکز، مغربی آذربائجان ( لاطینی: Agricultural Station, West Azerbaijan) ایران کا ایک رہائشی علاقہ جو صوبہ آذربائیجان غربی میں واقع ہے۔

آذربائیجان غربی
کردستان

کردستان

کردستان مشرق وسطی کے ایک جغرافیائی و ثقافتی خطے کا نام ہے جس میں کرد نسل کے باشندوں کی اکثریت ہے۔ کردستان شمالی اور شمال مغربی بین النہرین سے ملحقہ علاقے شامل ہیں۔ کردستان کے علاقے ترکی، شام اور عراق میں تقسیم شدہ ہیں۔ کچھ علاقے ایران میں ہیں۔کردستان کے لوگ ننانوے فی صد مسلمان ہیں اور اسلام سے ان کی وابستگی بہت زیادہ ہے۔

18ویں صدی میں کرد باشندوں کا یہ علاقہ صفوی ایران اور عثمانی سلطنت کے درمیان تقسیم ہوگیا۔ مگر کردستان کبھی بھی تاریخ میں ایک علاحدہ ملک کے طور پر نہیں رہا۔ وجہ یہ کہ ماضی میں یہ تمام علاقہ ایک ہی خطے میں شمار ہوتا تھا۔ پہلی جنگ عظیم سے قبل بیشتر کرد باشندے سلطنت عثمانیہ کے صوبہ کردستان کے رہائشی تھے۔ جنگ عظیم میں شکست اور سلطنت کے خاتمے کے بعد اتحادی افواج نے علاقے میں سرحدیں تشکیل دیتے ہوئے مختلف ممالک بنانے کا پروگرام بنایا اور معاہدہ سیورے کے تحت اس میں کردستان بھی شامل تھا۔ کمال اتاترک کی جانب سے ان علاقوں کی دوبارہ فتح کے بعد معاہدہ لوزان طے پایا جس کے تحت موجودہ ترکی کی سرحدیں متعین کی گئیں اور کرد باشندوں کی اپنی حکومت کا خواب چکنا چور ہوگیا۔ دیگر کرد اکثریتی علاقے برطانیہ اور فرانس کے زیر قبضہ عراق اور شام میں شامل ہوگئے۔

پہلی جنگ عظیم سے اب تک کردستان 4 ممالک میں تقسیم ہے جن میں عراق، ترکی، ایران اور شام اہم ممالک ہیں۔

انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا کے مطابق کردستان کا رقبہ 74 ہزار مربع میل (191،660 مربع کلومیٹر) پر پھیلا ہوا ہے اور اس کے اہم ترین شہر دیار باکر اوروان (ترکی)، موصل، اربیل اور کرکوک (عراق) اور کرمانشاہ (ایران) شامل ہیں [3]۔ انسائیکلوپیڈیا آف اسلام کے مطابق کردستان کا رقبہ ترکی میں 190،000، ایران میں 125،000، عراق میں 65،000 اور شام میں 12،000 مربع کلومیٹر ہے اس طرح کردستان کا کل رقبہ 392،000 مربع کلومیٹر بنتا ہے [4]۔ محتاط اندازے کے مطابق اس علاقے میں 40 ملین کرد باشندے رہائش پزیر ہے۔

کوہ جودی اور کوہ ارارات یہاں کے اہم ترین پہاڑ اور دریائے دجلہ و دریائے فرات اہم ترین دریا ہیں۔

جھیلوں میں جھیل وان (ترکی) اور جھیل ارمیہ (ایران) عالمی سطح پر معروف ہیں۔

کرمانشاہ

صوبہ کرمانشاہ ایران کا ایک صوبہ ہے جس کا صدر مقام کرمانشاہ ہے۔

ایلام

ایلام ایران کا ایک صوبہ ہے۔اس کا صدر مقام ایلام شہر ہے۔

ھمدان.png

ہمدان

ہمدان ایران میں صوبہ ہمدان کا صدر مقام ہے۔ 2005ء میں ایک اندازے کے مطابق ہمدان کی آبادی 550,284 ہے۔ حالیہ مردم شماری کے مطابق ہمدان شہر کی آبادی 51,821 ہے۔ ہمدان ایران کے قدیم شہروں میں شامل ہے۔ سطح سمندر سے اس کی بلندی 1850 میٹر بلند ہے۔ یہ شہر تہران سے 200 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ یہاں پر بہت سی معروف ہستیاں مدفون ہیں جن میں

ھمدان

© 2017 by Web Master Shabbir Ahmad Shigri

bottom of page